کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 102
تالیاں اور سیٹیاں بجانے کا کام بھی کافر کرتے اور اسی کو عبادت سمجھتے۔ جس طرح آج ہمارے ہاں دین کے نام پرقوالی ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے ﴿ وَمَا کَانَ صَلاَتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ الاَّ مُکَاءً وَّتَصْدِيَةً ﴾ (الانفال: ۳۵) ” اور ان کی نماز کعبہ کے پاس صرف سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا تھی“ چنانچہ تمام مسلمان بھائیوں کو غور کرنا چاہیے اور ایسے افعال سے پرہیز کرنا چاہیے۔مسلمان موٴمن کی روح کی غذا ذکر الٰہی سے شغف ہے۔روح کی غذا گانا بجانا نہیں بلکہ یہ ایک مہلک زہر ہے جس سے دل وجسم میں قلق اور ہیجان پیدا ہوتا ہے۔گانا بجانا روح کی نہیں بلکہ بدروح کی غذا ہے۔مسلمان کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ بے ہودہ مجالس میں حاضر نہیں ہوتا ۔ارشادِ باری ہے : ﴿ وَالَّذِيْنَ لاَ يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ وَإذَا مَرُّوْا بِالَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا ﴾ (الفرقان: ۷۲) ” اور جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی بیہودہ شے پر ان کا گزر ہوتا ہے تو بزرگانہ گزر جاتے ہیں “ زُوْر سے مراد جھوٹ ہے ۔ ہر باطل چیز بھی جھوٹ ہے۔ جھوٹی گواہی سے لے کر کفروشرک اور ہر طرح کی غلط چیزیں مثلاً لہوولہب ،گانا بجانا اور دیگر بے ہودہ جاہلانہ رسوم وافعال سب اس میں شامل ہیں عبادالرحمن کی صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ ایسی بے ہودہ مجلسوں میں حاضر نہیں ہوتے بلکہ خاموشی اورعزت ووقار کے ساتھ وہاں سے گذر جاتے ہیں ۔کلام اللہ لگاؤ سے سنتے ہیں ، ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿ وَالَّذِينَ إذَا ذُکِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوْا عَلَيْهَا صُمًّا وَّعُمْيَانًا ﴾ (الفرقان:۷۳) ” جب انہیں انکے ربّ کے کلام کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ اندھے بہرے ہو کر اُن پر نہیں گرتے “ اللہ تعالیٰ کا ذکر سن کر اللہ کی جلالت وعظمت سے ان کے دل ڈر جاتے ہیں ۔ ارشادِ باری ہے: ﴿ إنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ إذَا ذُکِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَإذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُهُ زَادَتْهُمْ إيْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّهِمْ يَتَوَکَّلُوْنَ الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوٰةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُوْنَ﴾ (الانفال: ۳) ” پس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیں اور وہ اپنے ربّ پر توکل کرتے ہیں ۔“ ذکر الٰہی سننے سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے ﴿ وَاذَا سَمِعُوْا مَا أنْزِلَ إلَی الرَّسُوْلِ تَریٰ أعْيُنَهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ﴾ (المائدہ ۸۳) ” اور جب وہ رسول کی طرف نازل کردہ کتاب کو سنتے ہیں تو آپ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں “ قرآن پڑھنے سے متقین کے جسم کانپتے اور جسم ودل ذکر الٰہی کی طرف جھک جاتے ہیں :