کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 101
﴿ وَلاَ تَقْرَبُوْا الزِّنٰی إنَّهُ کَانَ فَاحِشَةً وَّسَآءَ سَبِيْلاً﴾ (بنی اسرائیل: ۳۲) ” تم زنا کاری کے نزدیک مت جاؤ کیونکہ وہ بڑی بے حیائی ہے اوربہت ہی بری راہ ہے“ جس طرح زنا بے حیائی کاسبب ہے اورحرام ہے، اسی طرح ہر وہ فعل جو زنا کاری کا سبب بنے حرام ہوگا مثلاً کسی غیر محرم عورت کو دیکھنا، خلوت میں اس سے کلام کرنا، عورت کا بے پردہ ہو کر بن سنور کر گھر سے باہر نکلنا، عورت کے گانے سننا … یہ سب راستے زِناکاری کاپیش خیمہ ہیں ۔ ان تمام امور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع کیا ہے ، گویا جوشخص غیر محرم عورتوں کے گانے سنتا ہے تو یہ اس کے کانوں کا زنا لکھا جاتا ہے او رجو آنکھ سے کسی غیر محرم کو دیکھے تو یہ اس کی آنکھوں کا زنا شمار ہوتاہے۔جس طرح گانا سننا حرام ہے اس طرح کسی مجلس میں شریک ہوکر مجرہ دیکھنا / سننا بھی حرام ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” دل بھی زنا کرتاہے، آنکھ بھی زنا کرتی ہے… گانا بجانا غیرمسلموں کا مشغلہ ہے! اسلام سے قبل گانے بجانے کے تمام اَطوار عروج پر تھے، عہد ِرسالت میں کافروں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو جس قدر دبانے کی کوشش کی، تمام حربے آزمائے، ان میں ایک بڑا فتنہ گانے بجانے کا بھی تھا۔ ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِیْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ ﴾کے شانِ نزول میں مختلف اَقوال منقول ہیں ۔ جن میں ایک یہ ہے کہ نضربن حارث کا شمار مشرکین مکہ کے اہم تاجروں میں ہوتا تھا ، وہ مختلف ملکوں میں تجارتی سفر کرتا تھا ۔ ایک بار وہ ملک فارس سے بڑے بڑے بادشاہوں کے تاریخی قصے خرید لایا اور مشرکین مکہ سے کہا کہ محمدا تم کو قومِ عادوثمود کے واقعات سناتے ہیں ، آؤمیں تمہیں ان سے بہتر رستم اور اسفندیار اور دوسرے شاہانِ فارس کے قصے سناتا ہوں ۔ (بیہقی) (۱) ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ یہ تاجر باہر سے ایک گانے والی لونڈی خرید کرلایا اور اس کے ذریعہ اس نے لوگوں کو قرآن سننے سے روکنے کی یہ صورت نکالی کہ جو لوگ قرآن سننے کا ارادہ کرتے، اپنی اس کنیز سے ان لوگوں کو گانا سنواتا او رکہتاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم کو قرآن سنا کر کہتے ہیں کہ نماز پڑھو، روزے رکھو اور اپنی جان دے دو، جس میں تکلیف ہی تکلیف ہے لیکن تم یہ گانا سنو اور جشن طرب مناؤ ۔(بیہقی) (۲) ابن خطل فتح مکہ کے موقع پر غلافِ کعبہ سے لٹکا ہوا قتل کیا گیا تھا۔اس لئے کہ وہ مرتد ہوگیاتھا اور اس نے اپنے ایک ساتھی کو قتل کردیا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اس نے دو لونڈیاں گانے والی رکھی ہوئیں تھیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی مذمت اور بدگوئی کرواتا اور ڈانس کرواتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو قتل کرنے کا حکم بھی صادر کیا، جن میں ایک قتل کردی گئی اور دوسری کیلئے امان طلب کی گئی۔ (فتح الباری)