کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 10
راقم الحروف کے ایک جاننے والے صاحب ہیں جنہیں ایسی مجالس میں شریک ہونے کا موقع ملا ہے۔ ان کی روایت کے مطابق بسنت کے موقع پر لاہور شہر کی معروف طوائفو ں اور اداکاراؤں کی بولیاں لگتی ہیں ۔ ان کے بقول گذشتہ سال (۲۰۰۰ء) بسنت کے موقع پر ایک نوخیز فلمی اداکارہ کو گلبرگ کے ایک رئیس صنعت کار نے بسنت رات کے لئے پانچ لاکھ دے کر ’بک‘کیا۔ اس اداکارہ نے تمام رات فطری لباس میں یعنی عریاں ہو کر رقص پیش کیا۔ فسق و فجور کی اس مجلس میں لاہور کے منتخب اَشراف شریک تھے، انہوں نے جس والہانہ انداز میں ویلیں نچھاور کیں ، ا س کا اندازہ خود راوی کو بھی نہیں ہے۔ جنسی باؤ لے پن او رحیوانیت کے جو مظاہرے کئے گئے، ان کا الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ انہی صاحب نے شاہ جمال کی ایک کوٹھی میں بسنت کے اِنتظامات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کوٹھی کے ایک حصے میں شراب کا کاؤنٹر سجایا گیا تھا جہاں نہایت قیمتی شراب، انواع قسم وافر مقدار میں موجود تھی۔ ہر طالب حسب ِخواہش شراب نوشی کرسکتا تھا۔ کوٹھی کے لان میں باربی کیو کا اہتما م تھا جہاں لذتِ کام و دہن کے لئے ہر نعمت موجود تھی۔ ایک وسیع ہال میں رقص و سرود کی محفل جمع تھی۔ مکان کی چھت پر ڈھول تماشے، طوائفیں اور کرائے کی عورتیں موجود تھیں جو ہر ’بوکاٹا‘ پر نعرے لگاتی تھیں ۔ رات کے آخری حصے میں طوائفیں بدستور رقص پیش کر رہی تھیں ، البتہ شرکا کی اکثریت شراب کے نشے میں مدہوش تھی… دوچار کوٹھیوں کی بات نہیں ہے، بسنت کے موقع پر لاہور شہر میں سینکڑوں ایسے محلات ہیں جہاں اباحیت ِمطلقہ اور جنسی ہوسناکیوں کے یہ مناظر دیکھے جاسکتے ہیں ۔ ان مجالس میں محض امرا ہی نہیں ، وہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جن کا بنیادی فریضہ امن عامہ کا قیام اور جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری ہے۔
رنجیت سنگھ کے زمانے میں طوائفیں بسنت میلے میں شریک ہوتی تھیں اور بسنتی لباس پہنتی تھیں ، آج بھی ’گناہ کے بازار‘ میں بسنت کا تہوار بے حد جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں اُمراء کی بیگمات زرد لباس نہیں پہنتی تھیں مگر آج امیر گھرانوں کی بیگمات طوائفوں کے اتباع میں نہ صرف زرد لباس پہنتی ہیں بلکہ پتنگ بازی میں جوش و خروش سے حصہ لیتی ہیں ۔ نوجوان لڑکیاں بوکاٹا کے نعرے لگاتی اور کلاشنکوف سے فائرنگ کرتی ہیں ۔ اندرونِ شہر مکانوں کی چھتیں سرسوں کے کھیت جیسا منظر پیش کرتی ہیں ۔
بسنت ایک ایسا تہوار ہے جس میں امیر، متوسط اور غریب گھرانے اپنی اپنی مالی اِستعداد کے مطابق حصہ لیتے ہیں ۔ فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی بسنت کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں ۔ پتنگ بازی جہاں ایک بہت بڑا شغل سمجھا جاتا ہے، وہاں پتنگ سازی لاہور میں اچھی خاصی صنعت کا روپ دھار چکی ہے، ایک فضول شوق کی تکمیل میں قوم کا کروڑوں روپے کا سرمایہ برباد کردیاجاتا ہے۔ وہ لوگ جومالی پریشانیوں سے دوچار ہیں اور زندگی کی گاڑی مشکل سے چلا رہے ہیں ، وہ بھی چاہے قرض کیوں نہ لینا پڑے، بسنت ضرور مناتے ہیں ۔ ایک جنون ہے جو اہل لاہور پر طاری ہوجاتا ہے یا کردیا جاتا ہے، دو چار روپے کی