کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 97
رہی ہے جس کی دو وجوہات ہیں :
عیسائی تورات کی شریعت کو لعنت گردانتے ہیں جس سے ان کے ہاں نیک اعمال کا تصور ختم ہوا۔ اب عیسائیت میں نیکی سے مراد معذوروں ، بیماروں ، غریبوں ، محتاجوں ، بے سہاروں ، بچوں ، مصیبت زدوں ، بیواؤں ، حاجت مندوں ، گروں پڑوں کی مالی امداد اور مادّی معاونت کا تصور ہی باقی ہے۔ وہ لوگ یہ کام خلوص اور لاجواب تبلیغی جذبہ سے کرتے ہیں ۔اس کے لئے دومثالیں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں :
دو انگریز جزائر نیوگنی کے پہاڑی قبائل میں جاملے۔ ان کی بول چال، رہن سہن، کھانا پینا، چلنا پھرنا، مذہب، معاشرت، تہذیب، ثقافت ، رسوم و رواج کا ۳۰ برس تک ان میں رہ کر مطالعہ کیا۔پھر واپس انگلستان جاکر ان کی بولی کے لئے حروفِ تہجی ایجاد کئے۔ زبان دانی کے قواعد ترتیب دیئے اور بالآ خراس نئی زبان میں انجیل کا ترجمہ کیا۔ نیپال کے ایک گاؤں میں عیسائی خواتین مشنریوں نے لڑکیوں کے لئے سکول کھولا ہے جو پختہ سڑک سے ایک دن کی پیدل مسافت پر واقع ہے۔
یعنی عیسائی مشنریوں کی امدادی سرگرمیاں اور خلوص ان کا سرمایہٴ کار ہے۔ الحمدللہ کہ میں نے قریباً ًنصف صدی مذاہب ِعالم کا مطالعہ کیا ہے اور تمام کے تمام غیر اسلامی مذاہب کی بنیاد بت پرستی پائی ہے۔ ان میں سے عیسائیت دنیا کا سب سے بڑا اور ٹھیٹھ بت پرست مذہب ہے۔ عیسائی صلیب کا بت ہروقت گلے میں لٹکائے پھرتے ہیں ۔ اسی وجہ سے بت پرست مذاہب کے پیروکاروں کے لئے بھی عیسائیت کو قبول کرنا آسان ہے اور وہ پرانے آبائی مذاہب اور بتوں کو چھوڑ کر مسیح، مریم ، صلیب اور اولیا کے بت پوجنے لگ گئے۔
دیارِ مغرب کے مبلغین نے جب مشرقی ممالک میں تبلیغ عیسائیت شروع کی تو ان کے دائیں ہاتھ میں اِمدادی اشیاء ، رفاہی سرگرمیاں اور بائیں ہاتھ میں بائبل ہوتی تھی۔ وہ سکول، ہسپتال اور رفاہِ عامہ کے ادارے قائم کرتے اور مغربی ممالک کے مفادات کے محافظ ہوتے تھے۔ ان کے ذہنوں میں سفید فام اَقوام کی برتری قائم تھی۔ افریقہ میں کہتے کہ سفید فاموں کی خدمات میں تکالیف جھیلو گے تو تمہیں اگلی دنیا کی راحتیں ملیں گی۔ وہ سامراجیت کے محافظین تھے۔ انہوں نے افریقی حبشیوں پر لرزہ خیز مظالم کے پہاڑ توڑے۔۱۵۰۰ء تا ۱۸۰۰ء کے درمیان قریباً ایک کروڑ سیاہ فام غلام زنجیروں میں جکڑ کر مغربی ممالک میں ڈھوئے گئے۔ عیسائی مشنریوں کی ایسی کارروائیوں کا نتیجہ یہ نکلاکہ افریقی باشندے ان سے الرجک ہوگئے یہاں تک کہ وہ انہیں قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے تھے۔آپ حضرات یہ سن کر شائد حیران ہوں گے کہ زمبابوے کی جنگ ِآزادی میں ورلڈ کونسل آف چرچز کے مشنریوں کا ایک خاص مقام تھا۔ دسمبر ۱۹۷۶ء سے فروری ۱۹۸۰ء کے درمیان قریباً ۲۵ مشنری لقمہ اجل بنے، ۱۸ کو دیس نکالا ملا۔