کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 94
جائیداد کی بربادی یا قبضہ سے محرومی، گرفتاری، جبری مشقت، پھانسی اور قتل ان کا مقدر ہے۔ بعض قوانین بین الاقوامی معیاروں پر پورے نہیں اُترتے، مذہب تبدیل نہیں کرنے دیتے۔ مشرقی اور وسطی یورپ میں اقلیتی مذہبی گروپ موٴثر یا کلیةً مذہبی آزادی سے محروم ہیں ۔ مغربی یورپ میں غیر حکومتی فرقوں کو قانونی اقلیتی حقوق حاصل نہیں ہیں ۔ مذہبی آزادی او رانسانی حقوق کو خطرہ وہاں ہوتا ہے جہاں حکومتیں مذہبی معاملات میں ”بہت زیادہ اثر انداز ہوں ۔‘‘ برطانیہ میں سیاہ فاموں اور دوسرے اقلیتی گروپوں میں بے روز گاری زیادہ ہے۔ نسلی بنیادوں پر تشدد عروج پر ہے۔ سیاہ فام، پولیس تشدد سے مرتے ہیں ، تعلیم میں بھی امتیاز برتا جاتا ہے۔ پاکستانی نژاد عیسائی چیختے ہیں کہ ان کے ہم مذہب ہونے کو وقعت نہیں دی جاتی او ررنگ کی بنا پر ان سے تعصب برتا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کو ’پاکی‘ کہہ کر مذاق اڑایا جاتاہے۔ برطانیہ کی لبرل ڈیموکریٹک، لیبر اور کنزرویٹو پارٹیوں کے لیڈروں نے مذہبی رہنماؤں کو یقین دلایا ہے کہ وہ کسی بھی پارٹی کے امیدوار یا ممبر کو” فوراً ردّ کردیں گے“ جو رہائشی، غیر ملکی یا پناہ کے متلاشیوں کو رنگ یانسل کی بنا پر ان سے نفرت کی حمایت یا چشم پوشی یا حوصلہ افزائی کرے گا۔ حالیہ مہینوں میں نسل اور پناہ کے متلاشیوں سے متعلق سیاسی بیانات میں ایسی زبان اورلہجہ اختیار کیا جارہاتھا جس سے متفکر ہو کر آرچ بشپ آف کنٹربری اور آرچ بشپ آف یارک نے پارٹی رہنماؤں کو خطوط لکھے تھے۔ انسانی حقوق والوں نے میکسیکو کے کیتھولک صدر سے درخواست کی: جناب پروٹسٹنٹ فرقوں پر ترس کھائیے۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے ، ہم غور کریں گے، تاہم ہم پر بیرونی دباؤ بھی بہت زیادہ ہے! ارجنٹائن میں رومن کیتھولک حکومت ہے۔ وہاں ۳۵ ملین آبادی کے پروٹسٹنٹ فرقوں کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ وہ اپنا وجود منوانے کے لئے ریلیاں کرتے اور جلوس نکالتے ہیں ۔ بلغاریہ میں آرتھوڈکس چرچ کو ’ریاستی مذہب‘کا درجہ حاصل ہے۔ نئے قوانین کے تحت ریاستی مذہب کو مزید حقوق اور آزادیاں ملیں گی جبکہ دیگر فرقوں او رمذہبوں کی شامت آئے گی۔ جس کی ایک مثال عرض ہے کہ حکومتی فرقہ نے میتھوڈسٹ عیسائیوں کا گرجا چھین کر اسے پتلی گھر میں تبدیل کردیا۔ وہ اپنا گرجا تعمیر کرنے کے لئے پلاٹ مانگتے تو جواب ہوں ہاں تک محدود رہتا۔ مرپیٹ کر انہوں نے خود ہی ایک پلاٹ تلاش کیا تو کسی شرارتی نے شور مچا کر بے چاروں کو خاموش کردیا۔ چند برس پیشتر لاس اینجلس کے نسلی فسادات نے امریکہ بہادر کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ انسانی حقوق کے علمبردار امریکی سفید فام، سیاہ فام امریکی باشندوں کو برداشت نہیں کررہے۔ اسی بنیاد پر محمدعلی باکسر بنا