کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 93
خلاف کوئی حکومت نہ بننے دے اور اقلیتی مفادات کے خلاف کوئی قانون پاس نہ ہونے دے۔ اتنے کثیر اور گرانقدر مطالبات پورے کرنے سے یہ کہیں آسان تر ہے کہ ملک کی باگ ڈور عیسائیوں کے حوالہ کردی جائے۔ نے تیر کماں میں ہے، نے صیاد کہیں میں گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے! مسیحی اقلیت اور پاکستان کے اربابِ اقتدار سطور بالا سے عیسائی اقلیت کا بے لگام ہونا اظہر من الشمس ہے۔ ان کی سماج و ملک دشمن سرگرمیوں کی گرفت تو کجا، ان کا نوٹس لینے والا بھی کوئی نہیں ۔ علماءِ کرام اس مسئلہ کا کچھ بھی مطالعہ نہیں رکھتے۔ عوامی دلچسپی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ملک کے ایلیٹ طبقہ پر عیسائی پراپیگنڈہ کا جادو چل چکا ہے۔ وہ انہیں واقعی مظلوم سمجھتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ حقائق جاننے کا خواہشمند بھی نہیں ہے۔ آپ یہ سن کر شائد حیران ہوں گے کہ میں نے ایک محفل میں اپنی تالیف بعنوان ”صدر کلنٹن کے نام مسیحیوں کا مراسلہ اور اس کا جواب“ سابق وزیراعظم ملک معراج خالد کو پیش کی تو وہ لاپرواہی سے بولے:چائے کے وقفہ میں مجھے دینا۔ ہر دور حکومت میں اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہونے والے افراد عیسائیوں کے زیر اہتمام چلنے والے تعلیمی اِداروں کے فارغ التحصیل ہوتے ہیں ۔ ان سے اس ضمن میں قومی سوچ کی توقع رکھنا عبث ہے۔ چیف ایگزیکٹو پاکستان جنرل پرویز مشرف سینٹ پیٹرک ہائی سکول میں تشریف لے گئے۔ اپنے زمانہ کی عمر رسیدہ استانی سے مل کر خوش ہوئے اور سکول کو مبلغ بیس لاکھ روپے کی گرانقدر گرانٹ عنایت فرمائی۔ ا س سلسلے میں عالمی اداروں اور مغربی ممالک خصوصاً امریکہ کا دباؤ بے حدوحساب ہے۔ گذشتہ برس مجھے جناب محمد رفیق تارڑ، صدر مملکت خداداد پاکستان سے ملاقات کا موقع ملا۔ میں بڑا مسلح ہوکر گیا تھا۔ دورانِ گفتگو میں اپنے بیگ کی طرف جو لپکا تو صدر مملکت نے اسے نہ کھولنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”ہم سب کچھ جانتے ہیں ، مگرہم مجبور ہیں !“ مختصر یہ کہ پاکستان میں جو حقوق و مراعات اور آزادیاں اقلیتوں ، بالخصوص عیسائیوں کو حاصل ہیں خود عیسائی ممالک میں رہنے والے عیسائی اقلیتی فرقے ان کا خواب دیکھنے کو بھی تڑپتے ہیں ۔ اقلیتیں …عالمی منظر میں ! ۱۶ کروڑ عیسائیوں کی نمائندہ تنظیم ’ورلڈ ایونجیلی کل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اقلیتیں دنیا بھر میں مذہبی عدم برداشت اورامتیاز کا شکار ہیں ۔ ملازمت، رہائش و سماج، مذہب کے انتخاب، مذہبی اور ذاتی