کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 90
اور سلیم الطبع عیسائی بھی ایسے احتجاجی جلوسوں میں بھرپور حصہ لیتے ہیں ۔ مذکورہ روداد یہ ہے:
گستاخِ مسیح ایکٹ
”لوگ ٹی وی پروگراموں میں گستاخی ٴ مسیح پر بہت نالاں ہیں ، بی بی سیI نے پوچھا کہ کیا متعلقہ قانون کو سخت بنایا جائے؟“
”یہ سوال اس طرح پیدا ہوا کہ ۱۹۸۹ء میں بنائی گئی ایک فلم Visionog Ecstasy کو برطانوی فلم سنسر بورڈ نے گستاخی مسیح کی بنیاد پر ردّ کردیا تو فلمساز نے انسانی حقوق کے یورپی کمیشن کے ہاں اپیل کردی۔ مختلف مسیحی و مسلم افراد سے رائے لی گئی“
”نارمن پائپر نے فلم دیکھ کر کہا کہ ایک مسیحی ہونے کے ناطہ سے اسے ”سخت صدمہ پہنچا ہے۔‘‘ اس کی رائے میں ہر مذہب کے لوگ اسے دل آزار قرار دیں گے۔ ایک مسلمان عورت نورجہاں نے فلم کو جذبات مجروح کرنے والی قرار دیا او رکہاکہ فلم کے کچھ حصے ناقابل نمائش تھے، میں تو آنکھیں بند کرلیتی تھی“
”سلمان رُشدی پر فتویٰ سے متعلق مسلمانوں کے جذبات کے احترام میں او رحال ہی میں ایک لباس پر ڈینرائنر کی طرف سے قرآنی الفاظ کو ٹی وی اور پریس میں دکھائے جانے پر اس دلیل نے وسعت پکڑی کہ مسلمان جس چیز کو دل آزار سمجھیں ، اس پر بھی کنٹرول سخت کیا جائے“
”بی بی سی پروگرام کا نقطہ عروج یہ تھا کہ ایک طرف تو آزادیٴ اظہار ہے او دوسری طرف قدیم اور کبھی کبھار استعمال کیا جانے والا گستاخی مسیح کا قانون“
”پروگرام میں سوال پیدا ہوا کہ اگر حکومت مخالفت کو دبانے کے لئے قانون بنائے تو عیسائی زیادہ ناراض ہوں گے یا فلم کی نمائش سے؟“
”اس طرح گستاخی مسیح کا قانون سنسر شپ کے مناظرہ میں آگیا۔ایک مسلمان نے زیادہ پابندیوں کی دلیل دیتے ہوئے کہاکہ اس کا اس ملک کے لوگوں کی معاملہ فہمی پر یقین ہے جیسا کہ ایک قانونی عدالت میں جیوری کے فیصلہ سے ظاہر ہے کہ معاشرہ کو کیا قبول ہے!“
”بحث یہاں آکر رکی کہ پبلشروں اورمصنّفین کو حساس معاملات میں محتاط رہنا چاہئے۔ آکسفورڈ کے دینی رہنما نے کہاکہ اگر آرٹسٹ اورمصنّفین ایسے معاملات میں خود احتسابی کریں تو یہ برا نہ ہوگا۔ اس کا اپنا خیال تھا کہ اگرچہ گستاخی مسیح کا موجودہ قانون بعض معنوں میں غیر معیاری ہے لیکن اسے ختم کرنے کا مطلب یہ منفی اشارہ ہوگاکہ ہماری سوسائٹی میں مذہب کو کچھ مقام حاصل نہیں ہے“
”اکثر عیسائیوں کی رائے بھی یہی ہے“