کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 89
کی سازش‘، ’انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘، ’ناانصافی پر مبنی‘، ’غیر منصفانہ‘،’بنیادی حقوق کے منافی‘،’امتیازی‘، ’غیر جمہوری‘، ’غیر انسانی‘ اور ’انسانیت کی تذلیل کرنے والا‘ کہتے ہیں ۔
”آج جس قدر قوانین شریعت کے نام پر بنائے گئے ہیں ، وہ سب کے سب اقلیتوں کو اپنے پاؤں کے نیچے رکھنے کے لئے بنائے گئے ہیں ۔ جداگانہ طریق انتخاب کے بطن سے ہی شاتم رسول کے قانون نے جنم لیا“
”شریعت بل کے نفاذ سے پارلیمنٹ کی برتری اور آئین کی بالاتری ختم ہوجائے گی۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی طرف سے شرکا نے مختلف بینزر اور پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر ”ساڈی شریعت، ساڈا خدا، ملاں توں نہ رولا پا“… ”شریعت بل نامنظور کے نعرے درج تھے“
آئین میں آٹھویں ترمیم جس نے اسلامی دفعات اور جداگانہ انتخاب کو تحفظ دیا ہے، اسے ’غلاظت‘ پکارا جاتا ہے۔ماہنامہ ’مکاشفہ‘ فروری ۱۹۹۶ء کا ’مہمان اداریہ‘ پڑھ کر محسوس ہوگا کہ عیسائی اقلیت کس قدر دیدہ دلیر، منہ زور اور اکثریت کے مذہبی جذبات روندنے میں کتنی بے باک ہے، ایک پورے صفحہ پر درج ہے :
مہمان إداریہ
”کالے قوانین کا خاتمہ اور … خصوصاًتعزیراتِ پاکستان ۲۹۵۔سی کا فوری خاتمہ پاکستان کے مسلم اور غیرمسلم لوگوں کی بہتری اور خوشحالی ہے“(ڈاکٹر جان جوزف، بشپ آف فیصل آباد)
مغرب سے گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایکٹ کی حمایت
جاننا چاہئے کہ اِن دنوں جب کہ پاکستان کے عیسائی گستاخِ رسول ایکٹ کے بدرجہ انتہامخالف ہیں ، مغربی دنیا بھی ان کی ہم نوا دکھائی دیتی ہے۔ دیارِ مغرب کا ایک دانشور طبقہ اس ایکٹ کا موٴید ہے۔ لیکن بی بی سی ٹیلیویژن کے ایک پروگرام سے ظاہر ہے کہ بی بی سی ناظرین معقولیت پسند ہیں ۔ وہ گستاخِ مسیح ایکٹ کے حامی ہیں او راسے مزید سخت بناناچاہتے ہیں تاکہ کسی لحاظ سے بھی گستاخی مسیح کی ذرا بھر بھی گنجائش نہ رہے اور مجرم کی کماحقہ گرفت کی جاسکے۔ یہ روداد لندن کے مشہور ہفت روزہ ’میتھوڈسٹ ریکارڈر‘ بابت ۱۷/ مارچ ۱۹۹۶ء میں جریدہ کے مستقل کالم نگار میلکم مور کی ترتیب دی ہوئی ہے۔
بی بی سی کے ناظرین اور اہالیانِ برطانیہ کے رویہ سے گستاخِ رسول ایکٹ کی حمایت کا خوش کن پہلو عیاں ہے۔ واضح ہو کہ امریکہ اور یورپی ممالک میں حیاتِ مسیح پر بننے والی فلموں کا خاصا حصہ قابل اعتراض اور دل آزار ہوتا ہے جس کی مخالفت میں مسلمانوں کا پیش پیش ہونا قابل فخر ہے۔معقولیت پسند