کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 88
حال چال پوچھتے رہے۔ القصہ پاکستان میں عیسائی اقلیت، مسلم اکثریت پر بھاری اور حاوی ہے، اس کے حوصلے بلند ہوئے ہیں ۔ اقلیتی مسائل ہی کیا، عام ملکی معاملات پر بھی حکومت اس کی رائے کو ترجیحی نظروں سے دیکھنے کی کوشش کرتی ہے جس سے عیسائیوں کے رویہ میں مزید سختی اور طرزِ عمل میں شدت آگئی ہے۔ اب صورت حال کچھ اس طرح ہے کہ عیسائی اقلیت کل آبادی کا محض 1.56 %ہونے کے باوجود پاکستان کو بوسنیا بنانے اور خون کی ندیاں بہانے کی دھمکیاں دیتی اور پاکستان کونازی جرمنی کا حشر یاد دلاتی ہے۔ ”مولویوں کے یہ فتوے سوئے ہوؤں کو جگا کر خون کی ہولی کھیلنے پر مجبور نہ کردیں جو ملک و قوم کے حق میں بہتر نہ ہوگا“ ”آج کا مسیحی تلوار چلانا جانتاہے، خون بہانا جانتا ہے اور خون دینا بھی جانتا ہے“ ”اب کے اگر … مسیحیوں کی طرف کسی پارٹی نے اُنگلی بھی اٹھائی تو وہ انگلی کاٹ دی جائے گی“ باغیانہ تقاریر ۱۱/ اگست ۱۹۹۵ء کو پارلیمنٹ چوک، اسلام آباد میں عیسائیوں کا ایک اجتماع ہوا۔ مقررین نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا : ”بے نظیر، چیئرمین سینٹ اور نوازشریف بھی ضیاء الحق ایسے لعنتی ہیں ، ہمیں قوم کے ان غداروں کو مٹانا ہے“ ”یہ زرداری خریداری کچھ نہیں ہے“ ”بے نظیر یہاں آکے دیکھ لے، یہ میری ماؤں او ربہنوں کی جوتی کے برابر بھی نہیں ہے“ ”میں اس شہر کوباطلوں کا شہر تصور کرتاہوں “ ”ہم آئین کے باغی ہیں “ ”جداگانہ انتخابات کو نہیں مانتے“ ”ہم ۱۴/ اگست کو یوم آزادی نہیں منائیں گے“ پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر، اسلام کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ گذشتہ چند برسوں سے اس سمت میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے تو عیسائی اَقلیت چراغ پاہوئے جارہی ہے۔ اس کی اسلام دشمنی طشت ازبام ہورہی ہے۔ یہ لوگ اسلامی قوانین کو’کالے قوانین‘، ’انسان کو انسان سے جدا کرنے اور نفرتوں و کدورتوں کی دیوار کھڑی کرنے والے‘، ’ملک میں آزاد سوچ، جمہوریت اور مساوات کی نفی‘،’غیر انسانی‘، ’انسانی حقوق کی پامالی‘ اور توہین رسالت ایکٹ کو ’قاتل قانون‘، ’جان اور ایمان کا دشمن‘ اور’ قباحتوں سے بھرا ہو“، ’اقلیت آزار اور انسان دشمن‘،’معاشرہ میں عدم رواداری کا ثبوت‘،’اقلیتوں سے مذہبی آزادی چھیننے