کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 81
خرچ کئے ہیں ۔ ان کی آمدورفت کو عموماً خفیہ رکھا جاتاہے۔ عالم اسلام کے اس عظیم مجاہد کو دیکھ کر روحانی خوشی ہوئی۔یاد رہے کہ ابو عبدالعزیز کے آباؤ اجداد سندھ سے نقل مکانی کرکے سعودی عرب میں آباد ہوئے تھے۔ اس سلسلہ میں ایک عظیم الشان تقریب جامعہ لاہور الاسلامیہ میں بھی منعقد ہوئی۔ یہ تقریب تکمیل صحیح بخاری شریف، تجوید و قرآت کانفرنس اور تقسیم اسناد کے حوالہ سے منعقد ہوئی۔ عالم اسلام اور عرب ملکوں کی ممتاز شخصیات نے اس تقریب کو رونق بخشی۔ چند نمایاں مہمانانِ گرامی میں سعودی عرب کے وزیرعدل و انصاف ڈاکٹر عبداللہ بن محمد بن ابراہیم آل الشیخ، سعودی عرب کے مفتی شیخ صالح بن غانم السدلان، بحرین کی جمعیت التربیة الاسلامیہ کے چیئرمین عادل بن عبدالرحمن جاسم، سعودی عرب کے نامور عالم دین شیخ عبداللہ بن حمد ا لجلالی، مجمع الفقہ الاسلامی جدہ کے سینئر رکن شیخ ڈاکٹرعبداللہ مطلق، تبوک ہائی کورٹ کے قاضی ڈاکٹر ابراہیم البشر، جماعت الدعوة الی القرآن والسنہ کے امیر مولانا سمیع اللہ (افغانستان)، سعودی عرب کے پاکستان میں سفیر شیخ احمد العجلان اور دیگر غیر ملکی شخصیات شامل ہیں ۔ ا س کے علاوہ جامعہ کی مجلس تاسیسی (مجلس التحقیق الاسلامی) کے صدر دفتر میں جامعہ کی ’مجلس اُمناء‘ (گورننگ باڈی)کے اِجلاس بھی کانفرنس سے پہلے او رکانفرنس کے دوران جاری رہے۔ جن میں بعض اجلاسوں میں ’مجلس‘ کے زیر اہتمام عہد ِنبوت سے لے کر عصر حاضر تک شریعت کے حوالہ سے اسلامی قاضیوں کے فیصلوں پر مبنی انسائیکلو پیڈیا کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لئے بھی جامعہ کے مختلف شعبوں کے سربراہان کے علاوہ کانفرنس کے ممتاز سکالرز شریک ہوتے رہے۔شریک ہونے والوں میں سعودی عرب، کویت ،دوبئی اوربحرین وغیرہ سے جامعہ کے ٹرسٹیز شامل ہیں ۔ اس کانفرنس کے شرکا کے اسماءِ گرامی اور اس میں پڑھے جانے والے مقالہ جات کی فہرست دیکھ کر اس بین الاقوامی کانفرنس کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اس طرح کی کانفرنس اگر کسی عرب ملک میں منعقد کی جاتی تو وہاں کے ذرائع اِبلاغ اس پر خصوصی ایڈیشن اور ضمیمہ جات شائع کرتے، ٹیلی ویژن پراس کو خوب تشہیر دی جاتی۔ مگر صد افسوس پاکستان میں منعقد ہونے والی یہ عظیم الشان کانفرنس پاکستان کے میڈیا میں بہت زیادہ جگہ نہ پاسکی۔ ارشاد حقانی صاحب اور عارف نظامی صاحب نے مغربی میڈیا کے اسلام کے خلاف تعصب کا اپنی تقاریر میں ذکر کیا، مگر وہ اپنے ملک کے سیکولر میڈیا کے دینی تنظیموں کے خلاف تعصب کو فراموش کرگئے۔ بین الاقوامی اسلامی کانفرنس کو سوائے روزنامہ نوائے وقت اور ’انصاف‘ کے کسی دوسرے اخبار نے کوئی خاص اہمیت نہ دی۔ ارشاد حقانی صاحب جس کثیر الاشاعت اخبار (جنگ) میں کالم لکھتے ہیں ، اس نے تو اس کانفرنس کے دوسرے روز کی کارروائی کے متعلق ایک کالمی خبر تک شائع نہ کی۔ کتنے افسوس کا