کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 79
چیچنیا، بوسنیا، اور کوسوو میں مسلمانوں کی نسلیں ختم کرنے کی وحشیانہ پالیسی پر عمل ہو رہا ہے، مگر مسلمان ملکوں کی طرف سے اس صورت ِحال کے خلاف مطلوبہ ردّ عمل سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے زور دیا کہ مسلمان ملکوں میں اسلامی روح بیدار کرنے کے لئے موٴثر اقدامات کئے جائیں ۔ امت ِمسلمہ کودرپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے تعلیم کو ترجیحی بنیادوں پر فروغ دیا جائے۔
(۲۵) جنرل (ریٹائرڈ) کے ایم عارف، جنرل ضیاء الحق کے دست ِراست تو تھے ہی، دانشور بھی کم درجہ کے نہیں ہیں ۔ عسکری پس منظر کے لحاظ سے وہ واحد شخصیت ہیں ، جنہوں نے اس کانفرنس میں خطاب کیا۔ جنرل خالد محمود عارف نے کہا کہ مسلمانوں کی آبادی ایک ارب سے زیادہ ہے اور مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک مسلمانوں کی ۵۶ ریاستیں ہیں ، مگر مسلمان بے حد پسماندہ ہیں ۔ اسلامی دنیا علم، ٹیکنالوجی اور سائنس کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے، یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ مغرب ان کا استحصال کر رہا ہے۔ نازیوں کے خاتمے اور کمیونزم کے زوال کے بعد، مغرب تہذیبی اعتبار سے اسلام کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی ذرائع اَبلاغ نے اسلام کے لئے نئی اصطلاحات وضع کر رکھی ہیں مثلاً”اسلام کی واپسی“، ”اسلامی بنیاد پرستی“، ”اسلامی دہشت گردی“ اس طرح رائے عامہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ بعض مسلمان دانشور بھی مغربی میڈیا کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ بھی یہ زہریلی اصطلاحات مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں ۔ مغرب تیل کی فراہمی میں کسی قسم کی رخنہ اندازی کے امکان کو ختم کرنے کے لئے تیل پیدا کرنے والے مسلمان ملکوں کو دباؤ میں رکھے ہوئے ہے۔ مغرب کی تمام تر صنعت مسلمانوں کے تیل پر انحصار کرتی ہے۔ انہوں نے کہا: مغربی میڈیا پاکستان کے نیوکلیئر بم کو’اسلامک بم‘ کانام دیتا ہے، لیکن وہ کبھی نہیں کہتے کہ یورپ کے پاس جو بم ہیں ، وہ مسیحی بم ہیں یا بھارت کے پاس ہندو بم ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان اگرچہ سیاسی طور پر آزاد ہیں ، مگر معیشت اورٹیکنالوجی ، فو جی سازوسامان اور دیگر میدانوں میں وہ ابھی تک آزاد نہیں ہیں ۔ مسلمان ملکوں کو اتحاد، معاشی خوشحالی اور صنعتی ترقی کی اشد ضرورت ہے۔
(۲۶) کانفرنس کے آخری سیشن کا صدارتی خطبہ جناب محمود احمد غازی، وفاقی وزیربرائے مذہبی امور، حکومت ِپاکستان نے ارشاد فرمایا۔
مندرجہ بالا سطور میں انٹرنیشنل اسلامک کانفرنس میں پڑھے جانے والے اہم مقالہ جات کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ بعض مقالہ جات کے محض چند نکات پیش کرنے تک ہی اکتفا کیا گیا ہے۔ طوالت کے خوف کے پیش نظر چند مقررین کی طرف سے پیش کئے جانے والے مقالہ جات کے عنوانات پیش کئے جاتے ہیں ۔ اگرچہ ان میں سے بعض علمی اعتبار سے اتنے اہم ہیں کہ ان پر مختصر روشنی ڈالی جانا ضروری تھا: