کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 77
اس میں نمایاں ترین خطاب شعبہٴ ابلاغیات پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے مقالہ کا عنوان تھا ’عالمگیریت کا چیلنج او رمیڈیا‘… انہوں نے کہا کہ اس وقت امت مسلمہ متعدد نوعیت کے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ یہ سیاسی بھی ہیں ، فکری، معاشی او رنفسیاتی بھی۔ ان کا عالمی سطح پر مقابلہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا کے بھرپور استعمال سے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کا میڈیا مغربی اقدار کے تابع ہے۔ وہ اسلام کے قدری نظام کو اس کا صحیح مقام نہیں دیتا۔ مسلمانوں کا ابلاغی استحصال کیا جارہا ہے۔ مسلمان ملکوں کو چاہئے کہ وہ اپنا مشترکہ میڈیا نیٹ ورک قائم کریں ، جو اسلام کی آفاقی اقدار کی تشہیر او رابلاغ کا اہم فریضہ ادا کرسکے۔ (۲۱) انگریزی روزنامہ ’دی نیشن‘ کے ایڈیٹر جناب عارف نظامی نے ’ڈس انفارمیشن کی بلا اور مخالف میڈیا‘ کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا : اسلامی دنیا میں روز بروز یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ مغربی میڈیا اسلام کے خلاف سخت تعصب کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی میڈیا مسلمانوں کے لئے ایک لگی بندھی اور تعصب سے بھرپور ابلاغی مہم برپا کئے ہوئے ہے۔ مسلمانوں کے لئے دہشت گرد، بنیاد پرست اور جنونی کے الفاظ استعمال کئے جارہے ہیں ۔ فلسطین کا مسئلہ ہو یا عراق کے خلاف پابندیاں ، مسئلہ کشمیر ہو یا طالبان یا اسامہ بن لادن کا معاملہ، ہر معاملے میں تعصب کا مظاہرہ کیا جاتاہے۔ مغربی میڈیا ہمیشہ امریکہ اور یورپی یونین کی جارحانہ پالیسیوں کا جواز پیش کرتا ہے۔ لیکن وہ عراق کے خلاف پابندیوں کے بھیانک نتائج کی نشاندہی کرنے میں ہمیشہ ناکام رہتا ہے۔ مسلم اقلیتوں کی آزادی کی تحریکوں کو حق خودارادی کی جدوجہد کی بجائے دہشت گردی کی تحریک کا نام دیا جاتا ہے۔ مسلمان اقلیتوں کے انسانی حقوق کی پامالی کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ جناب عارف نظامی نے کہا کہ جب تک امت ِمسلمہ قوت حاصل نہیں کرتی اور نئے ادارے قائم نہیں کرتی، وہ مغربی دنیا کے غلبہ اور تسلط سے جان نہیں چھڑا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو جوابی صحافیانہ حملوں کے لئے نیٹ ورک قائم کرنا چاہئے۔ (۲۲) روزنامہ ’جنگ‘ کے کالم نگار، کہنہ مشق صحافی اور نامور دانشور جناب اِرشاد احمدحقانی کی گفتگو کا موضوع تھا: ”مغربی میڈیا اور عالم اسلام“ …جناب حقانی نے مغرب اور عالم اسلام کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ مغرب اور عالم اسلام کا توازن دو تین صدیوں سے بگڑا ہوا ہے۔ انیسویں صدی میں مغرب نے نوآبادیاتی تسلط قائم کیا، بیسویں صدی کے نصف میں عالم اسلام آزاد ہوا، لیکن عدم توازن جوہری طور پر دور نہیں ہوا۔ بلکہ مغرب ملت ِاسلامیہ کے مقابلے میں پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے میدان میں مغرب کی برتری ہمارے مفادات پر منفی طور پر اثر انداز ہورہی ہے۔ جدید