کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 75
موضوع پر مقالہ پڑھا۔ انہوں نے کہا: اسلامی اقتصادیات کی بنیاد تصورِ توحید پر قائم ہے۔ اسلام کا اخلاقی، سماجی، سیاسی اور معاشی نظام توازن کے اُصول پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام ہر معاملے میں توازن (Moderation) کا درس دیتا ہے۔ ’اقتصاد‘ کا لغوی مطلب بھی ’اعتدال‘ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام نے انسانی لالچ کی جبلت کو اُ خروی حیات سے متعلق کرکے متوازن کردیا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسلام میں ربو ٰ کی ہر شکل حرام ہے۔ یہ بنیادی طور پرگناہ ہے اور جرمبھی کیونکہ قرآن میں اِسے اللہ سے جنگ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام ناکام ہوچکے ہیں ۔ اسلام تمام دنیاوی اَعمال کو بھی اخلاقی اَعمال قرار دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زکوٰة کا صحیح معنوں میں نفاذ اقتصادی خوشحالی کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اسلام ذخیرہ اندوزی کے خلاف ہے۔ اسلامی معاشی ماڈل میں Collatoralکو Equity کے ساتھ مربوط کردیا گیا ہے۔ کے ایم اعظم صاحب نے اپنے طویل مقالے کے آخر میں مفصل سفارشات پیش کیں ، جن کا اِحاطہ کرنا مشکل ہے۔ (مکمل اُردو ترجمہ آئندہ شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں ، ان شاء اللہ) (۱۴) ان کے علاوہ جناب ارشد زمان نے ”اقتصادی اتحاد و یکجہتی کے لئے پالیسیاں “ کے عنوان سے انگریزی میں مقالہ پڑھا۔ انہوں نے مسلمان ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات کو بڑھانے کے لئے چند قابل قدر سفارشات پیش کیں ۔ (۱۵،۱۶،۱۷) اِقتصادیات کے موضوع پر وفاقی وزیر خزانہ کے مشیر خاص ڈاکٹر طارق حسن کا مقالہ بھی خیال اَفروز تھا۔ ان کا موضوع تھا: ”عالمی بنک اور آئی ایم ایف کے قرضہ جات پر انحصار کیسے کم کیا جائے؟“ انہوں نے پاکستان کے بین الاقوامی قرضہ جات پر مفصل اَعدادوشمار پیش کرنے کے بعد خیال ظاہر کیا کہ یہ قرضہ جات پاکستان کو ترقی کی بجائے تباہی کی طرف لے جارہے ہیں ۔ آئی ایم ایف کے استحصالی نظام سے نجات اُمت مسلمہ کی اقتصادی خوشحالی کے لئے ضروری ہے۔ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی صاحب نے بھی ”بیرونی قرضہ کے مسائل اور آئی ایم ایف پر انحصاریت کا خاتمہ“ کے موضوع پر مقالہ پڑھتے ہوئے مفصل سفارشات پیش کیں ۔ جناب انجینئر عبدالودود نے ’غیر سودی بینکاری‘کے موضوع پر مخصوص نقطہ نظر سے اظہا رِخیال کیا۔ (۱۸) پنجاب کے سابق گورنر جناب شاہد حامد نے کانفرنس کے ایک اِجلاس کی صدارت فرمائی۔ اپنے صدارتی خطبہ میں انہوں نے کہا کہ مسلمان دنیا کی کل آبادی کا ۲۰ فیصد ہیں ، ان کا ماضی شاندار ہے۔ اور وہ ایک عظیم الشان تہذیب کے وارث ہیں ۔ ابتدائی پانچ سو سالوں میں وہ سائنس و فنون کے تمام شعبہ جات میں قیادت پر فائز رہے۔ آج کے ترقی یافتہ ممالک کی تمام تر معاشی، سیاسی، تمدنی ترقی