کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 73
ایک کمیٹی بنائی جائے جو مسلمان ملکوں کے سربراہوں سے ملاقات کرکے انہیں عملی اِقدامات اٹھانے پر تیار کرے۔
(۱۰) شیخ ڈاکٹر حسن الشافعی، صدراِسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد کے مقالہ کا عنوان تھا:”مادّیت اور روحانیت کے درمیان انسان کا مستقبل“… یہ موضوع خالص فلسفیانہ بحث سے تعلق رکھتا ہے، اس لئے فاضل مقرر کا اُسلوب بھی فلسفیانہ رنگ لئے ہوئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کا پیغام عقلی، عملی اور روحانی اُمور کے متعلق توازن کے قیام پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جدید دور میں نئی روحانیت جنم لے رہی ہے جس کی بنیاد اسلام کے خوفِ خدا کے تصور پر ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ پیغمبر علیہ السلام محض مفکر نہیں ہیں ، وہ اپنے خیالات پر پہلے خود عمل کرتے ہیں ، بعد میں دوسروں کو دعوت دیتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اسلام کے روحانی پہلو کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
ان کے خیال میں مسلم معاشرے میں روحانی و اخلاقی ترفع کے حصول کے لئے ’مجاہدہ‘ کے اصول پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ اجتہاد، جہاد اور مجاہدہ ہی ہماری حکمت ِعملی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سائنس اور مذہب باہم یکجا ہوسکتے ہیں ، ان میں بالفعل کوئی تضاد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہب کے بغیر سائنس، انسانیت کی صحیح معنوں میں خدمت نہیں کرسکتی۔ آج دنیا ایک نئے مرحلہ میں داخل ہورہی ہے جہاں نئی اَقدار جنم لے رہی ہیں ، مگر مذہب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے اپنے خطبہ کے آخر میں ڈاکٹر اقبال کی کتاب ’جاوید نامہ‘ سے چند اشعار پیش کئے، جو انسان کو اپنی خودی کی پہچان کی ترغیب پر مبنی ہیں ۔
(۱۱) جماعت ِاسلامی کے راہنما مولانا گوہر رحمن نے ’اکیسویں صدی میں اُمت ِمسلمہ کو درپیش چیلنجز‘ کے موضو ع پر خطاب فرمایا۔ انہوں نے کہا کہ ان شاء اللہ اکیسویں صدی میں اُمت ِمسلمہ عالمی مسائل میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل ہوجائے گی، مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اُمت کو درپیش چیلنجز کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے اور ان کا حل تلاش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں پانچ بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اُمت کے زعما کو پانچ محاذوں پر حکمت و تدبر اور توازن کے ساتھ کام کرنا ہے۔ وہ پانچ چیلنجز یہ ہیں :
(۱) دین کے جامع تصور سے لاعلمی
(۲) امریکہ کے عالمی استحصالی نظام اور اسلام کے عالمی تعمیری نظام کے درمیان نظریاتی جنگ
(۳) افتراقِ امت اور انتشارِ ملت
(۴) مادّی قوت اور ٹیکنالوجی میں سامراجی قوتوں کی برتری