کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 71
موضوع ہے۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی اپنی بچیوں کے رشتے پاکستان میں کرتے ہیں ۔ لڑکے اور لڑکی کے درمیان ثقافت یا تعلیم وتربیت کے اعتبار سے چونکہ بہت فرق ہوتا ہے۔ اس لئے عموماً اس طرح کی شادیاں طلاق پر منتج ہوجاتی ہیں ۔ انگلینڈ میں عورتوں کے حقوق کے حوالہ سے کچھ ایسے قوانین بنائے جارہے ہیں کہ جس میں اس طرح کی شادیوں پر پابندی عائد کی جاسکے گی۔ انہوں نے کہا کہ مغربی میڈیا اسلامی ممالک میں ’غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل‘ کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے۔ ایسے واقعات کے بیان کرنے کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے کو وحشی اور غیر مہذب معاشرے کے طور پر پیش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بنیاد پرستی کے معاملے میں بھی مغربی میڈیا اسلام کو مطعون ٹھہراتا ہے۔ دین اسلام کو ’دہشت گردوں کے مذہب‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو وحشی بناکر دکھایا جاتا ہے حالانکہ اسلام رواداری کا مذہب ہے۔ صلاح الدین ایوبی کی مثال ہمارے سامنے ہے، مگر ایسی مثالوں کا مغربی میڈیا میں ذکر نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے بتایا کہ قانون توہین رسالت(Blasphemy) بھی مغربی ذرائع اَبلاغ کا مرغوب موضوع ہے۔ کچھ عرصہ پہلے وہاں کے ایک اخبار میں مضمون شائع ہوا جس میں مضمون نگار نے لکھا کہ توہین رسالت کی سزا اسلام میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے جواباً اپنے اعتراضات لکھ بھیجے۔ انہوں نے اس کے کچھ حصے تو شائع کردیئے مگر اس پر تنقید بھی کی۔ جب میں نے دوبارہ خط کے ذریعے سے اس کی وضاحت کی، تو انہوں نے وہ وضاحت شائع کرنے سے انکار کردیا۔ بلکہ ایک متعصّب انگریز نے میرے خلاف لکھا کہ ”تم اپنے ملک واپس چلے جاؤ!“ ڈاکٹر صہیب حسن اردو زبان کے علاوہ عربی اور انگریزی پر حیران کن حد تک عبور رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اس کانفرنس میں اپنی تقریر کے علاوہ کئی سیشنوں میں دیگر مقررین کے ترجمان (Translator) کے فرائض بھی انجام دیئے۔ انہوں نے عرب سکالرز کی تقاریر کو جس خوبی سے ساتھ ساتھ انگریزی میں اور اُردو اور انگریزی تقاریر کو عربی زبان میں ڈھال کر پیش کیا، وہ ان کی زبانوں میں مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔کانفرنس میں چونکہ انتظام تھاکہ حاضرین ’ہیڈ فون‘ کے ذریعے یہ رواں ترجمانی سن سکتے تھے۔ اس لئے مختلف زبانیں بولنے والوں کے لئے ڈاکٹر صہیب حسن صاحب کی ترجمانی نے پل کا کام کیا۔ راقم الحروف نے ہیڈفون کے ذریعے ان کی رواں ترجمانی سنی تو ایک خوشگوار حیرت ہوئی۔ مقرر کے اُتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ لفظ بہ لفظ اسی اسلوب میں ترجمہ کرتے جانا کہ اصل تقریر کا گمان ہو، ایک بے حد مشکل فن اور فریضہ ہے۔ یہ ایک بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے کیونکہ مسلسل ارتکاز توجہ کے ساتھ فوری طور پر ترجمہ کرنا آسان امر نہیں ہے۔ مگر ڈاکٹر صہیب حسن اور ان کے برادرِ خورد ڈاکٹر