کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 70
سٹیج پربیٹھے ہوئے افراد نے فرداً فرداً انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ سیشن کے اختتام پر میں نے دیکھا کہ حاضرین نے ڈاکٹرعبدالقدوس کا گھیراؤ کیاہوا ہے۔ ہر شخص ان سے مصافحہ کرنے اور نوجوان آٹوگراف لینے کے لئے تگ ودو کررہے تھے۔ خودسننے والے خوش نصیب کان عالم عرب کے اس دلوں کوگرما دینے والے اَدیب کی تقریر کا لطف شاید کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے۔
(۷) ڈاکٹر صہیب حسن صاحب تقریباً تیس برس سے لندن میں قیام پذیر ہیں ، انہوں نے قرآن و سنت کی دعوت دینے کے لئے وہاں مختلف اِدارے بھی قائم کر رکھے ہیں ۔ اس ضمن میں سعودی عرب کی حکومت نے بھی انہیں ’خصوصی سفیر‘ کے طور پر ذمہ داری سونپ رکھی ہیں ۔ ان کے والد ِگرامی مولانا عبدالغفار حسن مدظلہ، جماعت ِاسلامی کے بانی راہنماؤں میں سے ہیں ، جو ۱۹۵۷ء میں ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ سے اختلافِ فکر کے نتیجے میں الگ ہوگئے تھے۔ ڈاکٹر صہیب حسن کا غائبانہ تعارف حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب کی زبانی سن رکھا تھا کہ وہ برطانیہ کی شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل ہیں ۔ مدنی صاحب نے بتایا کہ انہوں نے ڈاکٹر صہیب حسن صاحب کو بارہا گذارش کی کہ وہ پاکستان واپس تشریف لائیں ۔ انہیں پاکستانی یونیورسٹیوں اور اعلیٰ عدلیہ میں اہم عہدوں کے لئے بھی کہا گیا۔
اسلامی کانفرنس میں وہ جب مہمان مقرر کے طور پر تشریف لائے تو ان سے شرفِ باریابی ملا۔ ڈاکٹر صہیب حسن نے ”مغربی میڈیا میں اسلام کے خلاف پراپیگنڈہ“ کے موضوع پر اظہارِ خیال فرمایا۔ اگرچہ وہ اس موضوع پر جامع مقالہ عربی میں لکھ کر لائے تھے، مگر منتظمین کی درخواست کے پیش نظر انہوں نے اسے انگریزی زبان میں پیش کیا۔ وقت کی کمی کی وجہ سے وہ اپنے علمی مقالہ کا صرف خلاصہ ہی پیش کرسکے۔
[ڈاکٹر صاحب کے مکمل عربی مقالہ کا ترجمہ ادارۂ محدث میں کیا جارہا ہے، ادارہ]
انہوں نے کہا کہ مغرب ’اسلاموفوبیا‘ Islamo Phobia (اسلام سے خو ف) کا شکار ہے۔ مغربی میڈیا میں اسلام کی مسخ شدہ تصو یر پیش کی جاتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں عورت کے حقوق، بنیاد پرستی اور اسلامی شعائر کے حوالہ سے اسلام کا ذکر بے حد اہانت آمیز انداز میں کیا جاتا ہے۔یورپی اخبارات میں اسلام کے بارے میں شر انگیزی پر مبنی مضامین شائع کرائے جاتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ کچھ عرصہ قبل وہاں بی بی سی نے ایک مذاکرہ کرایا جس میں ایک نام نہاد مسلمان مقرر نے پرجوش انداز میں کہا کہ حجاب اسلامی طریقہ نہیں ہے۔ یورپ میں بھی ہزاروں عورتیں نقاب اوڑھتی ہیں مگر ان کی تضحیک کی جاتی ہے۔ انہوں نے ایک واقعہ بیان کیا کہ لندن میں ایک ادارے نے ایک مسلمان خاتون کو محض اس بنا پر ملازمت سے چھٹی کرا دی کہ اس نے نقاب اُتارنے سے انکار کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ’ارینجڈ‘ (خاندان کی طے کردہ) شادیاں بھی ایک متواتر زیر بحث رہنے والا