کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 69
کہ اسلامی تاریخ کے نامور سائنسدانوں اور علماء مثلاً ابن سینا، ابن قیم، ابن طفیل وغیرہ میں اختلافات موجود تھے مگر وہ سب حریت ِفکر کے علمبردار تھے۔ اسلامی فلاسفر انسانی تہذیب کے انتہائی اعلیٰ مقام پر فائز ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرمحمداقبال اسلامی دنیا کے مجدد ہیں ۔ وہ حریت ِفکر کے ذریعہ مشرق و مغرب میں اتحاد پیدا کرنا چاہتے تھے۔ میں گذارش کروں گا کہ فکر اقبال کا بنظر غائر مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اقبال امت ِمسلمہ کے بہترین فکری قائد ہیں ۔ الدکتور محمد الجش نے کلامِ اقبال سے متعدد منظوم ترجمہ شدہ عربی اشعارپڑھ کر سنائے جن سے حریت ِفکر کا درس ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالم اسلام کو ”لبرل ازم اور فنڈامینٹل ازم“ (اسلامی آزادیٴ فکر او ردینی وفکری حمیت) کے درمیان صلح کی صورت نکالنی چاہئے۔ مگر جب تک ہم اصل دین (کتاب وسنت )کی طرف واپس نہیں آئیں گے، بات نہیں بنے گی۔
(۶) شام ہی سے تعلق رکھنے والے عالم اسلام کے معروف ادیب الدکتور عبدالقدوس ابوصالح صدر ’رابطہ الادب الاسلامی‘کا خطبہ عربی زبان کی فصاحت و بلاغت کا شاہکار تھا۔ ان کا خطبہ سن کر اہل عرب کے مایہ ناز شاعروں کے واقعات ذہن میں گھومنے لگے جو اپنے سامعین میں شعلہ بیانی سے آگ لگادیتے تھے۔ ڈاکٹرعبدالقدوس کا شمار برصغیر پاک و ہند کے عربی زبان کے مایہ نا زادیب سید ابوالحسن علی ندوی کے دوستوں میں ہوتا ہے۔ عالم عرب میں سیکولر ادیبوں کے مقابلے میں انہوں نے ادبِ اسلامی کا پرچم بلند کر رکھا ہے۔ ڈاکٹرعبدالقدوس نے ارضِ فلسطین پر ناپاک یہودیوں کے ظلم و ستم کا اس قدر جذباتی انداز میں نقشہ کھینچا کہ ایوانِ اقبال میں سناٹا چھا گیا۔ لوگوں کو شاید ان کی زبان پوری طرح سمجھ نہ آتی ہو، مگر ان کا کلام، فصاحت وبلاغت کا ایک سیل رواں تھا جو سامعین کو تنکوں کی طرح اپنے ساتھ بہاتے چلا جارہا تھا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ میں نے دیکھا کہ میرے قرب میں سٹیج سیکرٹری پروفیسر عبدالجبار شاکر کی آنکھیں بھی نم ناک تھیں ۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے کہ اس خوبصورت تقریر کا اردو زبان میں ترجمہ نہیں ہوسکتا۔
ڈاکٹرعبدالقدوس نے مسلمان ادیبوں پر زور دیا کہ وہ اسلامی ادب کے ذریعے غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کو جھنجھوڑنے کاملی فریضہ انجام دیں ۔ آج امت ِمسلمہ پر سخت وقت آن پڑا ہے۔ ملت کے نوجوان مغرب کی گمراہ فکر سے متاثر ہو کر اسلام سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ قلم کی آبرو کا جنازہ نکل گیا ہے۔ ایسے بحرانی وقت میں اگر ہمارے قلم حرکت میں نہ آئے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ آج اسلامی دنیا میں بے حسی طاری ہے۔ ایک مسلمان، دوسرے مسلمان کے غم کا احساس نہیں کرتا۔ اسی عدم اتحاد کی وجہ سے کفار ہم پر غالب ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی ادب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کی آفاقی اقدار کو فروغ دینے کا باعث بنے۔
ڈاکٹرعبدالقدوس جب اپنی تقریر کرکے واپس اپنی نشست پر آئے تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور