کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 68
افغانستان سے مشترکہ دفاعی معاہدہ کریں ۔ انہوں نے کہاکہ دین خیرخواہی کا نام ہے۔ میں خیر خواہی کے جذبہ سے گذارش کرتا ہوں کہ پاکستان کے دیوبندی، بریلوی او راہل حدیث آپس میں اتفاق پیدا کریں ۔ انہوں نے کہا کہ شیعہ سنی قتل و غارت اسلام کونقصان پہنچا رہی ہے۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ یہاں اتوار کی بجائے جمعہ کو چھٹی ہونی چاہئے۔
انہوں نے ۱۹۷۴ء میں سربراہی کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ امام کعبہ محمد بن عبداللہ السبیل کے ساتھ بھٹو صاحب سے ملے تھے۔ انہوں نے چار مطالبات پیش کئے تھے جن میں ایک مطالبہ جمعہ کی چھٹی کا تھا۔ بھٹو صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جمعہ کی چھٹی کا اعلان کریں گے، جو بعد میں انہوں نے پورا کردیا۔
جناب یوسف الرفاعی نے کہا: ہم سب ایک ہی وحدت ہیں ۔ عرب دنیا کو مشرقِ وسطیٰ کی بجائے اسلامی خطہ لکھنا اور کہنا چاہئے۔ اسرائیلی حکومت کی بجائے یہودی حکومت لکھا جائے کیونکہ قرآن میں ان کو یہودی کہا گیا ہے۔ انہوں نے عرب دنیا پر زور دیا کہ وہ پاکستان کو مالیاتی بحران سے نکلنے میں مدد دے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مسئلہ فلسطین کو اسلامی مسئلہ بنا کر پیش کیا جائے۔مسلمانوں کو چاہئے کہ اِبلاغیات کا نظام ایجاد کریں ۔ اسلامی دنیا کے امیر ممالک اس سلسلے میں آگے بڑھیں ۔ انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں مسلمان ممالک کے لئے مستقل نشست ہونی چاہئے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ مسلمان ملکوں کو روس پر دباؤ ڈالنا چاہئے کہ وہ چیچنیا کے مسلمانوں پر ظلم بند کرے…شیخ یوسف ہاشم الرفاعی پاکستان میں کئی دفعہ آچکے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُردو زبان کو بھی کافی حد تک سمجھتے ہیں ۔ کیونکہ انہوں نے کئی مرتبہ اپنی تقریر کا اردو میں ترجمہ کرنے والے صاحب کو کہا کہ فلاں بات کا بھی ترجمہ کریں ۔
(۵) ڈاکٹرمحمدا لحبش دمشق سے تشریف لائے تھے۔ ان کے فکر انگیز مقالے کا عنوان تھا :
”اسلامی آزادیٴ فکر اوراور مذہبی تنگ نظری (کے درمیان کس طرح مفاہمت پیدا کی جائے؟“ انہوں نے کہا کہ اختلاف فطری امر ہے۔ انہوں نے کہا :اسلامی اتحاد کی دعوت دینا بلاشبہ ایک عظیم مقصد ہے مگر عالم اسلام میں جو مختلف فکری موجیں موجود ہیں ، ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جب بعض عباسی خلفاءِ عباسیہ نے کتاب وسنت کی بجائے فقہ مالکی نافذ کرنی چاہی تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں منع کردیا کیونکہ وہ دوسرے فقہا پر اپنی رائے تھوپنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں آزادی ٴ اظہار کوبہت اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے کہاکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول :تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا ہے جبکہ خدانے انہیں آزاد پیدا کیا ہے،اسلامی لبرل ازم کی دلیل ہے۔ انہوں نے کہا
[1] مروجہ مغربی اصطلاحات LIBERALISM اور FUNDAMENTALISM دین اور سیکولر ازم کے تناظر میں تو مذہب سے آزادی اور مذہبی تشدد کے مفہوم میں ہی استعمال ہوتی ہیں لیکن جب انہیں اسلامی دائرہ میں مثبت اور منفی رجحانات کی بحث میں استعمال کیا جائے تو لبرل ازم کا روشن پہلو آزادی ٔ فکر اور بنیاد پرستی کا مذہبی عصبیت مراد ہوسکتا ہے جن کا تطابق مقصود ہے لیکن اسلامی معاشرے اب جن خرابیوں کے شکار ہیں ان کے پیش نظر دونوں مذکورہ اصطلاحات لامذہبیت اور گروہی رجحانات کے تنائو کی نشاندہی کرتی ہیں ، جن کا امالہ کیے بغیر اصلاح ممکن نہیں ۔ فاضل مقرر اسی کی وضاحت کر رہے تھے۔ محدث