کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 67
انہوں نے کہا کہ پاکستان بجاطور پر امت ِمسلمہ کی فکری قیادت کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ پاکستان اور مملکت ِسعودی عرب محبت، اُخوت کے لازوال اسلامی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے عالم اسلام کے مختلف خطوں بالخصوص کشمیر کے مسلمانوں پرروا رکھے جانے والے ظلم وستم کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ امت ِمسلمہ کو ان مسائل کے حل کے لئے مشترکہ کوشش کرنی چاہئے۔ (۳) کانفرنس کے پہلے روز ہی شام کو ہونے والے دوسرے سیشن میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب ارشاد حسن خان نے کانفرنس سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ”امت ِمسلمہ کے فکری قائدین یہاں اس غرض کے لئے جمع ہوئے ہیں تاکہ وہ قانون کی حاکمیت اور بالادستی کے عملی نفاذ کے لئے قابل عمل حکمت ِعملی مرتب کرسکیں اور بین الاقوامی سطح پر امن کے قیام کے لئے تجاویز پیش کرسکیں ۔ انہوں نے کہاکہ مسلم دنیا فطری اور انسانی وسائل سے مالا مال ہے مگر عالمی اداروں میں ان کے وسائل کے تناسب سے انہیں شرکت میسر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں مستقل نشست کے حصول کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ امت مسلمہ کو بھی جی۔ ایٹ کی طرز پرایک بلاک قائم کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں جہالت کے خاتمہ کے لئے بھی لائحہ عمل مرتب کرنا چاہئے۔“ (۴) کویت کے سابق وزیر اوقاف شیخ یوسف ہاشم الرفاعی نے عربی زبان میں طویل خطاب فرمایا۔ اس کا ساتھ ساتھ اُردو میں ترجمہ پیش کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اُمت مسلمہ مختلف طبقات میں تقسیم ہے او ریہ طبقات باہم دست و گریباں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ خیال غلط ہے کہ مسلمانوں کوایک دوسرے کے مسائل میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے۔ اگر ایسی سو چ رہے گی تو مسائل کیسے حل ہوں گے؟ مسلمان ایک دوسرے سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ ان کے مسائل کوئی باہر سے آکر حل نہیں کرے گا۔ انہوں نے قرآن و سنت سے حوالہ جات دیتے ہوئے زور دیا کہ مسلمان آپس میں بیٹھ کر اپنے مسائل حل کریں ۔ انہوں نے کہا کہ عالم کفر ملت ِواحدہ ہے۔ قرآنِ مجید نے یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بنانے کی ہدایت کی ہے۔ ہمیں امریکہ کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے۔ مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے ان کی طرف دیکھنا بہت بڑی غلطی ہے۔ جناب یوسف الرفاعی نے بڑی دردمندی سے کہا کہ روس نے چیچنیا کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں ، اسلامی حمیت کا تقاضا تھا کہ روس سے تعلقات ختم کردیئے جاتے۔ افغانستان میں ۹۰ فیصد علاقوں پر طالبان کی حکومت قائم ہے، مگر بے حد افسوس ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے علاوہ کسی مسلم ملک نے انہیں تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ موجودہ حالات میں پاکستان کے حکمران