کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 65
کے خیال میں یہ کانفرنس نہ صرف اتحادِ ملت ِاسلامیہ کے نصب العین کو آگے بڑھانے کے لئے ایک عظیم دستاویز کا کام دے گی، بلکہ عالم اسلام کی فکری قیادت کے لئے مینارہٴ نور بھی بنے گی۔ ان شاء اللہ
راقم الحروف کو مختلف کانفرنسوں اور سیمینارز میں شریک ہونے کا بارہا موقع ملا ہے۔ آج کل این جی اوز نے سیمینار منعقد کرنے کا ایک مخصوص کلچر بھی پروان چڑھایا ہے۔ مگر ان کا سارا زورِ خطابت پاکستان جیسے اسلامی ممالک میں مغربی تہذیبی اقدار کو فروغ دینا اور مغربی ثقافتی استعماریت کے تسلسل کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ این جی اوز’انسان دوستی‘کا پرچار تو بہت کرتی ہیں ، مگر ان کے کسی سیمینار میں اُمت ِمسلمہ کو درپیش مسائل اور ملت ِاسلامیہ کے اتحاد جیسے موضوعات کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ اس کے برعکس انٹرنیشنل اسلامی کانفرنس میں شریک ہونے والے ہر فرد کا احساس تھا کہ مسلمان ملت ِواحدہ ہیں ، ان کے مسائل مشترکہ ہیں ، ان کی تاریخ، کلچر اور اَقدار کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔ مسلسل تین روز تک اِسلامی اُخوت، بھائی چارے اور اتحاد کے روح پرور مناظر نگاہوں میں گھومتے رہے اور قلب کی گہرائیوں میں اُتر اُتر کر عجیب سرشاری کی کیفیات پیدا کرتے رہے۔
مختلف اسلامی ممالک سے آنے والے مہمانوں کے لباس مختلف تھے، ان کی زبان بھی ایک نہیں تھی، رنگ و نسل کا فرق بھی اپنی جگہ تھا مگریہ سب باتیں ان کے لئے قطعا ً اہم نہیں تھیں ، وہ ایک دوسرے پر مسلسل خلوص و محبت نچھاور کر رہے تھے، ان کے قلوب کی دھڑکن ایک تھی، کیونکہ ان کی نظریاتی اَساس ایک ہی ہے۔ اس کانفرنس میں شرکت کے دوران بار بار راقم الحروف کے ذہن میں دو مختلف مناظر گردش کر تے رہے۔ ایک طرف پاکستان کے کوتاہ اندیش، کم ظرف قوم پرستوں کی تازہ خرافات کا تصور ہی ذہن پر کوڑے برساتا رہا اور دوسری طرف اسلامی ممالک سے آئے ہوئے مسلمان شرکاء کے اتحاد انگیز اُخوت کی جہانگیری کا عملی نمونہ پیش کرنے والے مناظر بہار بن بن کر قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں اُترتے رہے۔ اس کانفرنس کا ایک ایک لمحہ اس یقین محکم کو فکری غذا دیتا رہا کہ رنگ، نسل یا لسانی تعصبات بنی نوع انسان کو انتشار میں مبتلا تو کرسکتے ہیں ، اتحاد کا باعث نہیں بن سکتے۔ اصل میں نظریہ ہی وسیع تر بنیاد کی واحد اور قابل اعتماد بنیاد بن سکتا ہے اور وہ نظریہ ہے امن وسلامیت کا، جس کا دوسرا نام ’اسلام‘ ہے۔
جی تو چاہتا ہے کہ اسلامی کانفرنس کے تمام مقررین کے افکار کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے ، مگر اس کے لئے جس قدر ذہنی کاوش درکار ہے، بوجوہ اس کا بروئے کار لانا ایک دشوار امر ہے۔ البتہ درج ذیل سطور میں اس کانفرنس کے چند مقررین کے خیالات کی تلخیص پیش کی گئی ہے۔ یہ تلخیص راقم کے ان نوٹس کی روشنی میں مرتب کی گئی ہے جو اس نے کانفرنس کے دوران لئے تھے، یا بعض نکات یادداشت کی بنیاد پر نقل کئے گئے ہیں ۔ جن مقررین کے خیالات کو قلم انداز کیا گیا ہے، ان کے بارے میں