کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 62
نہیں ۔ ایک جامع او رہمہ پہلو اسلامی نظامِ معیشت کی تشکیل اور عمل پذیری نہایت ضروری ہے جو سود کی لعنت سے پاک اور جدید دور کے اقتصادی تقاضوں کے مطابق ہو۔ اسلامی ترقیاتی بنک کی خدمات قابل قدر ہیں لیکن اسلامی ممالک کو عالمی مالیاتی اداروں کی استحصالی گرفت سے نکالنے کے لئے مزید موٴثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے معاشی ماہرین کے لئے بہت بڑاچیلنج ہے اور اس چیلنج کا جواب لانے میں جتنی تاخیر ہوگی، اسی قدر ہماری اُلجھنیں بڑھتی چلی جائیں گی۔ یورپ مشترکہ مالی مفادات کے لئے ایک کرنسی کانظام رائج کرچکا ہے۔ ہمیں ایک اسلامی اقتصادی نظام تک پہنچنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پرکام کرنا چاہئے۔ معزز حاضرین !امت کو درپیش مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے ہمیں یہ نکتہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ہماری دنیوی اور اُخروی فلاح کا حقیقی راز قرآن و سنت کی تعلیمات کو انفرادی و اجتماعی زندگی کا حصہ بنانے میں ہے۔ اسلام عقائد و عبادات کی حدوں سے آگے نکل کر حیاتِ انسانی کے تمام تر پہلوؤں کا اِحاطہ کرتااورایک مربوط نظام فکرو عمل کی واضح بنیادیں فراہم کرتا ہے۔علماءِ کرام اور صاحبانِ فکر و دانش کو اسلامی نظام سیاست و حکومت کے واضح خدوخال کا ایسا قابل عمل نقشہ مرتب کرنا چاہئے جوقرآن و سنت کے راہنما اصولوں سے مکمل مطابقت رکھتا ہو اور جو عہد ِحاضر کی فکر کوبھی اپیل کرے۔ اسلام دانش و تدبر اور حکمت و فراست کادرس دیتا ہے۔ ہمیں دنیا کو یہ باور کرانا چاہئے کہ اسلام امن، سلامتی، دوستی، مفاہمت اوربھائی چارے پر یقین رکھنے والا مذہب ہے جو انسانی حقوق کی پاسداری کو دینی اقدار کا جزو خیال کرتاہے۔اسلام نے آج سے چودہ سو سال قبل پانچ بنیادی حقوق یعنی حق الاحیا(Right of Life) ، حق الحریہ (Right of Liberty) حق التملک(Right of Property) حق العلم (Right of Knowledge) او رحق الکرامہ یعنی (Right of Personal Dignity) کا آفاقی منشور دیا۔ اسلام نے خواتین کو بلند معاشرتی مقام دیا اور ان کے حقوق کی مستحکم ضمانت فراہم کی۔ بیواؤں ، یتیموں ، حاجت مندوں ، بے کسوں اورمصائب میں مبتلا انسانوں کے حقوق ہمارے نظامِ اخلاق کے اہم اجزا ہیں ۔مسلم معاشروں میں اقلیتوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اور ان کے حقوق کی پاسداری مذہبی فریضے کی حیثیت رکھتی ہے۔بدقسمتی سے اسلام کے ان زرّیں اصولوں کے بارے میں مغرب کی بے خبری کی وجہ سے عمومی طورپر ایک منفی تاثر پایا جاتاہے۔ ہمیں اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے ٹھوس تدابیر کرنی چاہئیں تاکہ مسلم معاشروں کی حقیقی تصویر نمایاں ہوسکے۔ میں اس ضمن میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں جارحانہ، متحارب اور متصادم رویہ اختیار کرنے