کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 60
اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت کے طور پرسامنے آیا۔بعض برادر اسلامی ممالک نے تیز رفتار صنعتی اور معاشی ترقی کی اچھی مثالیں قائم کیں ۔ لیکن ان مثبت اور حوصلہ افزا پہلوؤں کے باوجود، عالم اسلام اجتماعی طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مغربی اَقوام کے ہم قدم نہیں ہوسکا۔ علم وتحقیق سے بے اعتنائی کا نوحہ آج انڈونیشیا سے مراکش تک پھیلے ہوئے اسلامی ممالک کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کے بیس فیصد کے لگ بھگ ہے لیکن اس آبادی کاتقریباً چالیس فیصد حصہ ناخواندہ ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ۵۶اسلامی ممالک کی مجموعی افرادی قوت صرف ۸۰لاکھ کے لگ بھگ ہے جو اس شعبے میں مصروفِ کار عالمی آبادی کا صرف تقریباً چار فیصد ہے۔ تحقیق اور ترقی یعنی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے میدان میں ان اسلامی ممالک کا حصہ عالمی افرادی قوت کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ساری اسلامی دنیا میں یونیورسٹیوں کی تعداد تقریباً ۳۵۰ ہے جن میں مجموعی طور پر سالانہ صرف ایک ہزار PHDs فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ ان ممالک میں یونیورسٹی کی سطح پر سائنس اورٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کی تعداد صرف ۲۰ فیصد ہے اور یہ وہ ممالک ہیں جن کی افرادی قوت سوا ارب انسانوں کے لگ بھگ ہے۔ جن کی آزاد مملکتیں تقریباً تین کروڑ مربع کلومیٹر پر محیط ہیں ۔ جو تیل کے مجموعی ذخائر کے تین چوتھائی حصے کے مالک ہیں ۔ جن کے پاس لامحدود معدنی دولت ہے۔ جوبے پناہ زرعی استعداد کے حامل ہیں او رجہاں کے لوگ جفاکش، ہمت شعار اور بے مثال ذ ہنی صلاحیتوں کے مالک ہیں ۔ کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں کہ ان تمام اسلامی ممالک کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار صرف بارہ ہزار بلین ڈالر ہے۔رقبے اور آبادی کے لحاظ سے کہیں چھوٹے ممالک فرانس، جرمنی اور جاپان کی مجموعی قومی پیداوار بالترتیب ۱۵ ہزاربلین، ۲۴ ہزاربلین اور ۵۵ ہزاربلین امریکی ڈالر ہے۔ یعنی مجموعی طور پر صرف ان تین ممالک کی مجموعی قومی پیداوار ۹۴ ہزار بلین ڈالر بنتی ہے۔ دنیا کی مجموعی برآمدات میں ہمارا حصہ ساڑھے سات فیصد اورمجموعی عالمی معیشت میں ہمارا حصہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ ہم پر تقریباً سات سو بلین ڈالر کا قرضہ ہے جو دنیا کے مجموعی قرضوں کا ۲۶ فیصد ہے۔ ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ذہین اور اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک نوجوان حالاتِ کار کی ناموزونیت اور محدود اِمکانات کے باعث ترکِ وطن کرجاتے ہیں ۔ پاکستان ، مصر، ایران، شام، بنگلہ دیش، ترکی، الجزائر، لبنان اور اُردن اسی سنگین مسئلے سے دوچار ہیں ۔ صرف پاکستان سے میڈیکل کے شعبے سے وابستہ ۶۰فیصد گریجویٹس وطن چھوڑ جاتے ہیں ۔یہ ایک نہایت ہی اہم مسئلہ ہے اور