کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 59
ہے۔اسلام کی نظریاتی اَقدار اور سائنسی ارتقا کے درمیان کبھی تصادم و پیکار کی فضا پیدا نہیں ہوئی بلکہ جدید سائنسی علوم پر دسترس اسلام کی متحرک اور روشن خیال فکر کا حصہ رہی۔ ساتویں سے چودھویں صدی عیسوی تک ہم اسلام کے اس پہلو کومعراجِ کمال پر دیکھتے ہیں ۔ یہی وہ دور ہے جب کیمیا، طبیعات، علم الہندسہ، فلکیات، طب، فلسفہ اور تاریخ کے شعبوں میں جابر بن حیان، الکندی، الخوارزمی، الرازی، ابن الہیثم، البیرونی، الغزالی، ابن رشد اور ابن خلدون جیسے عالی قدر مفکرین، سائنس دان اور اہل حکمت و دانش دکھائی دیتے ہیں ۔ اسلام کی فکر انگیز تعلیمات سے آراستہ ان شخصیات نے اپنی تحقیقات اور افکار کے ذریعے کائنات کے اَسرار و رموز کے مطالعہ و تحقیق کاذوق و شوق پیدا کیا۔ فروغِ علم کے اس زرّیں عہد میں علم و حکمت کاجو عظیم خزانہ سامنے آیا، اس کی مثال یونان سمیت کسی خطہ اَرضی کی تاریخ میں نہیں ملتی۔فکر تازہ کی اسی لہر نے یورپ سمیت دنیاکے کئی خطوں کی نسل نو کو علم و فن کی نئی بلندیاں سر کرنے کا سلیقہ عطا کیا۔ افسوس کہ علم و حکمت کا یہ کارواں تاریخ کے ریگزاروں میں کھو گیا اور سلطنت ِعلم کی فرمانروائی چھنتے ہی ہمہ پہلو زوال ہمارا مقدر ہوگیا۔علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اسی المیے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی نہیں دنیا کے آئین مُسلّم سے کوئی چارا مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ سلطنت ِعلم کی فرمانروائی سے محرومی، سیاسی زوال کاپیش خیمہ بنی۔ سیاسی زوال نے تہذیبی جاہ وجلال کی چکا چوند ماند کردی۔ان سارے عوامل نے یکجا ہو کر مسلمان خطوں کو معاشی پسماندگی کی تاریکیوں میں دھکیل دیا اور معاشی پسماندگی کے سبب مسلمانوں کے کم و بیش سارے علمی مراکز سامراج کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے گئے۔ اُمہ میں بیداری اور زندگی کی لہر بیسویں صدی کے نصف ِاوّل میں سیاسی بیداری کی لہر اٹھی اور بہت سے اسلامی ممالک نے سامراج سے آزادی حاصل کرلی۔اس سے بجا طور پر یہ توقع کی جانے لگی کہ آزاد اسلامی ممالک میں ایک بار پھر اسلام کے حقیقی تصور کی کارفرمائی ہوگی۔ دانش کدے پھر سے آباد ہوں گے۔علم و حکمت کے سرچشمے پھرسے پھوٹ پڑیں گے اور تحقیق وجستجو کی دشت ویراں پھر سے ہری ہوجائے گی، لیکن یہ خواب پوری طرح شرمندہٴ تعبیر نہیں ہوسکا۔بلاشبہ بعض اسلامی ممالک نے اس میدان میں قابل ذکر پیش رفت کی۔ صنعت و حرفت اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے بعض شعبوں میں قابل قدر ترقی کی مثالیں بھی سامنے آئیں ۔ خود پاکستان نے بے سروسامانی اور شدید دباؤ کے باوجود اپنے دفاعی ایٹمی پروگرام کو پایہٴ تکمیل تک پہنچایا