کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 55
نے چابی پھر عثمان بن طلحہ کو لوٹا دی جو مدت سے بیت الله کا کلید بردار چلا آ رہا تھا۔اگر آپ چاہتے تو یہ چابی اپنے خاندان والوں کو بھی عطا کر سکتے تھے لیکن آپ نے چابی اصل حقدار کو لوٹا دی۔
کنواں زم زم کا ڈول:آبِ زم زم کے کنویں کا ڈول آپ نے اس لئے خود نہ نکالا کہ کہیں قریش والے (ہاشمی) اس کو اپنا ہی حق نہ سمجھ لیں اور اس طرح دوسروں کی حق تلفی نہ ہو جائے۔
آخری خطبہ:اس تاریخی و بے مثال خطبہ میں جہاں آپ نے ذات پات‘ رنگ و نسل کے بتوں کو پاش پاش کیا، عورتوں اور غلاموں سے نیک سلوک کا حکم دیا۔ سود اور زمانہ جاہلیت کے تمام جھگڑوں کو ختم فرمایا، وہاں آپ کے الفاظ یہ بھی ہیں :”اپنے آپ کو بے انصافی سے بچائے رکھو“
وصال سے چند روز قبل:دنیا میں آج تک ایسا کوئی عادل نہیں گزرا جو یہ بات وثوق سے کہہ سکے کہ اس نے کبھی کسی سے ناانصافی نہیں کی اور اس پر اپنے آپ کو محاسبہ کے لئے پیش کرے لیکن آفرین صد آفرین اس اُمی عادل صلی اللہ علیہ وسلم پرکہ جس نے راہِ عدم کو سدھارتے ہوئے بھی کہا تھا:
”اگر کسی شخص کا حق مجھ پر ہو تو بتا دے“
ایک نے کہا کہ حضور نے ایک مسکین کو مجھ سے تین درہم دلائے تھے‘ وہ نہیں ملے۔ یہ درہم آنحضرت نے اسی وقت ادا کر دیئے۔
مندرجہ بالا تمام واقعات اس بات کا زندہ و پائندہ ثبوت ہیں کہ آپ نے ہر حال میں طالبانِ انصاف سے انصاف کیا۔ لیکن آج جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھتے ہیں تو انسانیت تڑپتی اور سسکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ آج منصف کی آنکھوں میں زر و جواہر کی خاک ڈال کر اندھا کر دیا جاتا ہے۔ اس کے ضمیر و قلم کو سفارش و رشوت کی زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ صحیح فیصلہ کرنے سے قاصر رہے۔ آج وہ دور آ گیا ہے کہ لوگوں کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں سالوں کوٹھڑیوں میں بند رکھا جاتا ہے۔ ماں کی کوکھ سے آزاد جنم لینے والے انسان کو حق کا ساتھ دینے کے جرم میں جو رو جفا کی چکی میں پیسا جاتا ہے۔
حصولِ انصاف کا طریقہ بھی اس قدر فرسودہ اور ناکارہ ہے کہ انصاف کے طالبوں کو سالوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ ٹھوس شہادتیں موجود ہوتی ہیں ۔ لیکن انصاف کے موجودہ ناخدا بندہٴ ہوا و ہوس اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ کوئی آئے اور ان کی داڑھ گرم کرنے کا سامان پیدا کرے۔ اگر یہ بات نہیں ہے تو کوئی بتائے کہ بالکل سیدھے سادھے مقدمات کو نمٹانے کے لئے لوگوں کو سالوں عدالتوں کے چکر کیوں کاٹنے پڑتے ہیں ۔
قابل ستائش تھا وہ دور جب لوگ ہر لحاظ سے محفوظ تھے، کسی کی جان و آبرو کو کوئی کھٹکا نہیں تھا۔ آج ہمارے معاشرے کو اس طرزِ انصاف کی ضرورت نہیں بلکہ اس عدل و انصاف کی ضرورت ہے جس کی طرح نبی ٴعادل محمد صلی الله علیہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر خلفائے راشدین و صحابہ کرام نے ڈالی تھی !