کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 54
حضور نے یہ جملے سنے تو آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور فرمایا کہ بالکل سچ ہے! فتح مکہ:جب مکہ فتح ہوا تو آپ کی راہ میں کانٹے بچھانے والے، آپ پر اوجھریاں ڈالنے والے ، آپ کے قتل کی سازشیں کرنے والے سب سر جھکائے ہوئے کھڑے تھے …آپ نے فرمایا: ”لوگو! تمہارا کیا خیال ہے؟ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں ؟“ انہوں نے کہا :”اچھا… آپ کریم بھائی ہیں اور کریم بھائی کے بیٹےہیں ۔“ آپ نے فرمایا: لاَ تَثْرِيْبَ عَلْيَکُمُ الْيَوْمَ ‘ اِذْ هَبُوْا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ ” آج تم پر کوئی سرزنش نہیں ‘ جاؤ تم سب آزاد ہو۔“ حالانکہ اگر آپ چاہتے تو ان ظالموں سے بدلہ لے سکتے تھے جن کی وجہ سے نہ صرف آپ بلکہ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن آپ نے بلا تفریق سب کو معاف کر دیا۔ مساواتِ محمدی:”اہل عرب آزاد شدہ غلاموں کو بھی کمتر اور حقیر سمجھتے تھے۔ سرکارِدو عالم نے ان نظریات کو باطل کرنے کے لئے ایک طرف تو خطبے میں یہ اعلان فرما دیا کہ جاہلیت کا غرور اور اَنساب کی بنا پر برتری کے دعوے الله تعالیٰ نے باطل قرار دے دیئے ہیں ، دوسری طرف اس مساوات کا عملی مظاہرہ یوں کیا کہ جب آپ مکہ میں داخل ہوئے تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا رکھا تھا‘ اور جب کعبہ میں داخل ہوئے تو حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی معیت میں داخل ہوئے‘ حالانکہ وہاں ابو بکر و عمر‘ عثمان و علی رضی الله عنہم سبھی موجود تھے۔ مگر رحمت ِدو عالم نے اپنی معیت کا اعزاز ایک غلام اور ایک غلام زادے کو بخشا‘ تاکہ اہل مکہ مساواتِ محمدی کا یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ۔ اسلامی عدالت کے کھلے دروازے:حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ من ولي عن أمرالناس شيأ ثم أغلق بابه دون المسلمين أوالمظلوم أوذي الحاجة أغلق اللّٰه دونه أبواب رحمته عند حاجته وفقره أفقرما يکون إليه ”لوگوں کے کاموں میں سے کسی کام کا جو شخص ذمہ دار بنایا جائے اور پھر وہ اپنا دروازہ مسلمانوں یا مظلوم اور ضرورت مند انسانوں پر بند کرے تو الله بھی ایسے شخص پر اپنی رحمت کے دروازوں کو اس کی اس ضرورت اور محتاجی پر بند کر لیتا ہے جس میں وہ سب سے زیادہ مضطر ہوتا ہے“ (مشکوٰةکتاب الامارة) بیت الله کی چابیاں :ایک دفعہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بیت الله کھول دو لیکن اس نے ایسا نہ کیا۔ آپ نے فرمایا: اے عثمان رضی اللہ عنہ ! دیکھنا ایک دن یہ چابی میرے پاس ہو گی۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ نے عثمان بن طلحہ سے وہی چابی لی اور بیت الله کا دروازہ کھول کر خانہٴ خدا کو بتوں سے پاک کیا۔ حضرت عباس نے حضورِ اکرم سے کہا کہ ”یہ چابی بنو ہاشم کو دے دی جائے“ لیکن حضور صلی الله علیہ وسلم