کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 52
اولاد کے درمیان عدل:والدین کا فرض ہے کہ اولاد کے درمیان مساوی سلوک کریں کیونکہ اسلام کی نگاہ میں دوسرے مذاہب کی طرح عدل میں چھوٹے بڑے کی کوئی تمیز نہیں ۔ آج اہل یورپ عدل و انصاف کے علمبردار بنے پھرتے ہیں لیکن آج بھی یورپ کے جن ممالک میں نوابی کا دور دورہ ہے، بڑے بیٹے کو جائداد میں زیادہ حصہ ملتا ہے۔ اسلام اس عدمِ توازن کو مٹاتا ہے۔ آج اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو لڑکی کو والدین کے ترکہ میں قانونی شریک ٹھہراتا ہے۔
”ایک دفعہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک بیٹے کو غلام ہبہ کیا‘ اور حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں جا کر چاہا کہ اس معاملہ پر آپ کی گواہی بھی ہو جائے۔ آپ نے پوچھا: کیا دیگر بچوں کو بھی ایک ایک غلام دیا ہے؟ عرض کیا: نہیں تو فرمایا : میں تو ظلم کا شاہد نہ بنوں گا، اسے واپس کردو“
(مسلم :کتاب الہبات)
دشمنوں کا اعتراف:نبی صلی الله علیہ وسلم کی اس صفت کا اعتراف اَعداء بھی کرتے تھے۔ ربیع بن خثیم سے روایت ہے کہ بعثت سے پیشتر بھی لوگ اپنے مقدمات کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے حضور میں فیصلہ کے لئے لایا کرتے تھے۔ (شفاء: ص ۱۵)
بادشاہوں کو تبلیغ:حضور صلی الله علیہ وسلم نے عالمگیر تعلیمات کو عام کرنے کے لئے بادشاہوں کو تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا تھا چنانچہ شہنشاہِ روم جو پوری عیسائی دنیا کا حاکم تھا کو آپ کا خط ملا تو اُس نے آپ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے حکم دیا کہ حجاز کا کوئی شخص اگر یہاں موجود ہو تو اُسے دربار میں حاضر کیا جائے۔ خدا کی قدرت کہ ابو سفیان (جو ابھی اسلام نہیں لائے تھے) جیسا اسلام کا دشمن تجارت کی غرض سے شام گیا ہوا تھا۔ ساتھیوں سمیت اُسے دربار بلایا گیا۔ قیصر روم اور ابو سفیان کے درمیان جو گفتگو ہوئی، اُس کے چند مکالمات یہ تھے: (صحیح بخاری: ص ۳،۴)
قیصر: تم نے اُسے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو) کبھی جھوٹ بولتے سنا ہے؟
ابو سفیان: نہیں
قیصر: کیا یہ نبی کبھی وعدہ کرکے پھر بھی گیا ہے؟
ابو سفیان: اب تک تو ایسا نہیں ہوا۔ اب جو معاہدہ ہوا ہے، دیکھیں وہ اس کو پورا کرتا ہے یا نہیں ؟
اس مکالمہ سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جو شخص وعدہ خلافی نہ کرے اور جھوٹ نہ بولے، وہ اپنے پرائے سے انصاف کرنے میں کیا کسر اٹھا رکھے گا۔
بدوی کو جواب:سرق ایک صحابی تھے، ان سے ان کی وجہ تسمیہ دریافت کی گئی توکہنے لگے کہ ایک بدوی دو اونٹ لے کر آیا، میں نے خرید لئے۔ پھر میں (قیمت لانے کے بہانہ سے) اپنے گھر میں داخل