کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 51
مکہ نے آ کر آپ کو صلح حدیبیہ کی شرائط کی طرف توجہ دلائی تو آپ نے ان سے انصاف کرتے ہوئے ابوجندل کو واپس کر دیا۔(الرحیق المختوم: ص ۵۵۷) بیویوں سے سلوک:یہ تو باہر کے معاملات تھے۔ آپ نے عدل و انصاف کے دامن کو اپنے خانگی معاملات میں بھی تھامے رکھا۔ آپ نے تقریباً ہر عمر کی عورتوں سے شادی کی اور اُن سے مساوی سلوک کرتے رہے اور اس طرزِعمل کو آخری دم تک نبھاتے رہے۔ جب آخری وقت آپ حضرت عائشہ کے حجرہ میں تشریف لائے تو اس سے پیشتر آپ نے تمام اَزواجِ مطہرات سے اجازت حاصل کی تھی۔( صحیح بخاری : باب مرض النبی ووفاتہ ، ص ۹۱۶) مالِ غنیمت کی تقسیم:مختلف جنگوں سے آپ کے پاس بے شمار مال و متاع آیا کرتا تھا لیکن آپ نے کبھی بھی یہ کوشش نہیں کی کہ میں مقرر شدہ حصہ سے زیادہ مال حاصل کر لوں ۔ یہ بات بھی آپ کے انصاف کو اجاگر کرتی ہے۔ عقبہ بن عامر کے ہمراہ سفر:ایک مرتبہ آپ سفر میں تھے، حضرت عقبہ بن عامر آپ کے ہمراہ تھے لیکن اونٹ ایک ہی تھا ۔کچھ دور چلنے کے بعد آپ نے عقبہ سے فرمایا: ”اب تم بیٹھ جاؤ میں پیدل چلوں گا‘ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ ہچکچائے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم تو پیدل چلیں اور وہ خود اونٹ پر سوار ہوں ۔ اس بات کو انہوں نے بے ادبی جانا‘ لیکن جب آپ نے اصرار فرمایا اور حکم دیا تو عقبہ رضی اللہ عنہ نے حکم کی تعمیل کی۔ یہ اس عدل وانصاف کی اعلیٰ مثال ہے جو آقا و غلام‘ ادنیٰ واعلیٰ کی تفریق کو ختم کر دیتا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے برابر کام کرنا:مسجد ِقبا کی تعمیر ہو یا خندق کی کھدائی، آپ نے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دوش بدوش اس میں حصہ لیا اور کسی بھی موقعہ پر دامن انصاف کو ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ ایک دفعہ حضورِ اکرم چند صحابہ کے ہمراہ سفر کر رہے تھے، راستے میں کھانے پکانے کی ضرورت پڑی تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپس میں کام بانٹ لیا ۔کسی نے کہا: میں یہ کروں گا، کسی نے کہا: میں وہ کروں گا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے کہا: میں آگ جلانے کے لئے لکڑیاں لاؤں گا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: آپ کے حصے کا کام بھی ہم کریں گے لیکن آپ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں آپ کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آ گے بڑھ کر عرض کی: یا رسول الله! اجازت ہو تو ہم یہ تسمہ گانٹھ دیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس کی اجازت نہ دی… یہ ہے انصاف کہ ایک آقا اپنے غلام سے اپنے آپ کو بڑا نہیں سمجھتا بلکہ ایک راہبر اپنے پیرؤں کے دوش بدوش مٹی کھودتا اور گارا لاتا ہے۔