کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 50
” کہو ! مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان عدل کروں “ (سورة شوریٰ : ۱۵) دنیا میں کوئی عادل ایسا نہیں ہو گا جس کے عدل کی گواہی خود خالق کائنات نے دی ہو۔ مسلمان اور یہودی کا مقدمہ:ایک منافق (جو بظاہر مسلمان تھا) اور یہودی کے درمیان کوئی تنازعہ تھا‘ دونوں حصولِ انصاف کی خاطر حضور اکرم کے پاس چلے گئے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے دونوں کے دلائل سننے کے بعد یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ منافق کو اس کا بہت رنج ہوا اور وہ یہودی کو لیکر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس جا پہنچا اور اپنا تنازعہ بیان کیا۔ یہودی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ اس سے قبل حضورِ اکرم میرے حق میں فیصلہ کر چکے ہیں ۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ابھی فیصلہ کرتا ہوں ، آپ اندر گئے اور اپنی تلوار لے آئے اور اُس منافق کا سر تن سے جدا کر دیا اور کہا ”جسے حضور کا فیصلہ منظور نہیں ، اُس کے لئے عمر رضی اللہ عنہ کا یہی فیصلہ ہے“ گویا رسالت کے تابناک ستارے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ یقین ہی نہیں بلکہ ایمان بھی تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کر سکتے خواہ اس کا مذہب کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ (تفسیر ابن کثیر ، سورة النساء، آیت ۶۵ کی تفسیر میں ، روایت سنداً ضعیف ہے، ادارہ) مسجد کی تعمیر:مسجد ِنبوی کی جگہ دو یتیم بچوں کی ملکیت تھی‘ آپ نے اُس وقت تک اس کی بنیاد نہ رکھی جب تک اُس کی قیمت ادا نہ کر دی۔ اگر آپ چاہتے تو بلاقیمت و اجازت مسجد تعمیر کر سکتے تھے۔ لیکن یہ پیکر عدل وانصاف کی شان کے خلاف تھا۔ (سیرت ابن ہشام: جلد اول) یہودیوں سے معاہدات:مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان مدینہ میں ہونے والے معاہدے کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ ”ہر طرح کے جھگڑوں کا فیصلہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم خود فرمائیں گے“ یہ بات بھی آپ کی اس صفت کو اور ٹھوس بناتی ہے اور ظاہر کرتی ہے کہ کافروں کو بھی آپ پر پورا اعتماد تھا۔ جیش العسرة:غزوہٴ تبوک میں بھوک سے تنگ آکر چند سپاہیوں نے ریوڑ کی ایک بکری ذبح کر لی‘ حضور کو پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکی ہوئی ہانڈیاں اپنی کمان سے اُلٹ دیں ، اسے حرام ٹھہرایا اور بکری کی قیمت ادا کی گئی۔ صلح حدیبیہ:صلح حدیبیہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی : ”قریش میں سے اگر کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینے چلا جائے تو اسے واپس کر دیا جائے گا لیکن اگر کوئی مسلمان مدینے سے مکے آئے تو اُسے واپس نہیں کیا جائے گا“ اس شرط کے بعد ایک مظلوم صحابی ابو جندل کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر مدینے آ گئے۔ جب اہل