کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 5
ان کی فطرت پر شدتِ عصیان اور استغراقِ ضلالت و فساد سے ایک ایسی تاریکی چھا گئی ہے جو نورِ ایمان سے کلیۃًمغائر ہے اور اس کے ساتھ عبودیت ِالٰہی کا نور جمع نہیں ہوسکتا۔ پس نماز سے بھی اسے انکار ہے اور روزہ کی بھی اسے تو فیق نہیں ۔ شریعت کے تمام حکموں کو اس نے چھوڑ دیا ہے اور اس کی زندگی یکسر ابلیسی ہوگئی ہے جس میں خداپرستی کے لیے چند گھڑیاں اور چند منٹ بھی نہیں ہیں :
﴿اُوْلٰئِکَ الَّذِيْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰی قُلُوْبِهمْ وَسَمْعِهمْ وَاَبْصَارِهِمْ وَاُوْلٰئِکَ همُ الْغَافِلُوْنَ﴾
”یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں ، ان کے کانوں ، اور ان کی آنکھوں پر مہر لگا دی ہے اور یہ وہ ہیں کہ غفلت میں گم ہوگئے ہیں “ (۱۲:۱۰۹)
امراء فساق اور روساء فجار
پس رمضان المبارک میں ایک گروہ تو تارکین صیام کا ہے جن کے لئے ماہِ مقدس کی برکتوں میں کوئی حصہ نہیں رکھا گیا، اور جن کی نفس پرستی پر روزہ رکھنا بہت ہی شاق گذرتا ہے۔ ان میں ایک جماعت اُمراء و روساء کی ہے جو فسق و فجور کی تاریکی میں ایسے گھرگئے ہیں کہ تقویٰ اور احتساب کی ایک ہلکی سی شعاع بھی ان کے سیاہ خانہٴ عمل پر نہیں پڑتی اور استغراقِ لہو و لعب اور انہماکِ شہوات و لذات نے انہیں بالکل اپنی طرف مشغوف (مشغول) کرلیا ہے۔
روزہ کی اصل صبر اور تقویٰ ہے۔ صبر کی حقیقت یہ ہے کہ خواہشات اور تکالیف برداشت کی جائیں ۔ پس اس کے لیے ضبط و تحمل کی، ایثار و احتساب کی، اتقائے روح اور طہارتِ نفس کی ضرورت ہے۔ مگر ان کا نفس شریر اپنی بہیمی خواہشوں میں اس درجہ بے قابو ہوگیا ہے کہ وہ تکلیف اور ایثار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ان کی طبیعت خواہشوں کی غلام اور نفس پرستیوں کی عادی ہوگئی ہے۔ پس وہ ایک گھنٹہ بھی ضبط ِجذبات و تحمل نفس کے ساتھ بسر نہیں کرسکتے۔
وہ ماہِ مقدس جو نزولِ سعادت کی یادگار تھا، جو موٴمنوں کے لئے نیکیوں اور خداپرستیوں کا سرچشمہ تھا، جو ہمیں تحمل مصائب اور مرضیاتِ الٰہیہ کی راہ میں ایثار نفس کی تعلیم دیتا تھا، آتا ہے اور گذر جاتا ہے، پر ان کے اعمالِ شیطانیہ او رافعالِ خبیثہ میں رائی برابر بھی تبدیلی نہیں ہوتی۔ پھران میں کتنے ہی ہیں جو عین رمضانُ المبارک کے اندر شربِ خمر اور زِنا و فسق میں چارپایوں اور حیوانوں کی طرح ڈوبے رہتے ہیں اور ماہِ مقدس کی برکتوں کی جگہ آسمانی لعنتوں کی ان پر بارش ہوتی ہے۔حدیث شریف میں تو آیا ہے کہ
”اِذا دخل شهر رمضان فتحت أبواب الجنة وأغلقت أبواب النار وصفدت الشياطين“ (رواہ البخاری)
”جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو نیکیوں کے بہشتی دروازے کھل جاتے ہیں ، برائیوں کے جہنمی دروازے بند ہوجاتے ہیں ، اور ارواحِ شریرہ و شیطانیہ کا عمل باطل ہوجاتا ہے “