کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 49
فرمایا: ”عباس کی کراہوں نے بے تاب کر رکھا ہے۔“ وہ صحابی گئے اور چپکے سے حضرت عباس کی بندشیں ڈھیلی کر آئے۔ تھوڑی دیر بعد رحمت ِ دوعالم نے حیرت سے پوچھا: ” کیا بات ہے‘ اب عباس کی کراہوں کی آواز نہیں آ رہی ہے؟“ ”یا رسول الله ! میں نے ان کی بندشیں نرم کر دی ہیں “… صحابی نے بتایا ۔ ”پھر اس طرح کرو“ داعی مساوات نے فرمایا ” کہ تمام قیدیوں کی بندشیں ڈھیلی کر دو۔“ یہ واقعہ بھی آپ کی منصف مزاجی کا شاہد ہے۔ ( جنگ ِحنین کے قیدی:جنگ حنین میں ۲۴ ہزار اونٹ‘ ۴۰ ہزار بکریاں ‘ چار ہزار اوقیہ چاندی اور چھ ہزار قیدی مسلمانوں کے ہاتھ لگے تھے ” نبی رحمت نے فرمایا: میں اپنے اور بنو عبدالمطلب کے قیدیوں کو بلا کسی معاوضہ کے رہا کرتا ہوں ۔ انصار و مہاجرین نے کہا: ہم بھی اپنے اپنے قیدیوں کو بلا کسی معاوضہ کے آزاد کرتے ہیں ۔ اب بنی سلیمہ و بنی فزارہ رہ گئے، ان کے نزدیک یہ عجیب بات تھی کہ حملہ آور دشمن پر (جو خوش قسمتی سے زیر ہو گیا ہو) ایسا لطف و کرم کیا جائے، انہوں نے اپنے حصے کے قیدیوں کو آزاد نہ کیا۔ نبی صلی الله علیہ وسلم نے انہیں بلایا۔ ہر ایک قیدی کی قیمت چھ اونٹ قرار پائی۔ یہ قیمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ادا کر دی اور اس طرح باقی قیدیوں کو بھی آزادی دلائی۔ یہ واقعہ جہاں آپ کی رحمدلی کی گواہی دیتا ہے، وہاں اس حقیقت کو بھی آشکارا کرتا ہے کہ حضور کی منصف پسند طبیعت کو یہ ہرگز پسند نہ تھا کہ چند قیدی تو اپنے رشتہ داروں کی وجہ سے چھوٹ جائیں اور چند کو بدستور قیدی رکھا جائے چنانچہ آپ نے باقی ماندہ کی قیمت ادا کرکے انہیں رہائی دلا دی۔ قرآن سے گواہی:قرآن پاک میں الله تعالیٰ خود اس بات پر شاہد ہیں کہ انہوں نے حضور اکرم کو دنیا میں انصاف کا حکم دے کر بھیجا ہے۔ حضور کو یہود کے مقدمات میں انصاف کا حکم دے کر اس کی ترغیب اُمت کو دی ہے۔ ”(اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) جب آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو عدل کے ساتھ فیصلہ کریں ۔ بے شک الله تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے“ (سورة مائدہ:۴۲) اس کے علاوہ حضور کی زبان سے قرآن میں کہلایا گیا ہے :
[1] ادارہ محدث کی طرف سے زیر نظر مضمون میں پیش کردہ واقعات کے حوالہ جات تلاش کئے گئے ہیں ، باوجود کوشش بسیار کے اس واقعہ کا حوالہ میسر نہیں آسکا لیکن اس سے ملتا جلتا واقعہ تفسیر ابن کثیر میں سورۃ انفال کی آیت ۷۰ کے تحت ان الفاظ میں موجود ہے کہ ایک حضرت عباس کو ایک انصاری صحابی نے گرفتار کرلیا، یہ بہت مالدار تھے۔ انہوں نے سو اوقیہ سونا اپنے فدیہ میں دیے۔ بعض انصاریوں نے سرکارِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گذارش کی کہ ہم چاہتے ہیں کہ عباس کو بغیر فدیہ لئے آزاد کردیں لیکن مساواتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم بردار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک چونی بھی کم نہ لینا۔