کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 48
موقع دیا کہ چادر کو کونوں سے پکڑ کر اوپر اُٹھائیں اور اس نیکی کے کام میں شریک ہوں ۔ جب مقدس پتھر اپنی مخصوص جگہ کے برابر پہنچ گیا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اُسے اُٹھا کر دیوار میں نصب کر دیا۔ اس سے سب مطمئن ہو گئے ،کسی کو شکایت کا موقعہ نہ ملا اور جس نے سنا آپ کی تعریف کی کیونکہ اس طرح تمام قبیلوں کی نمائندگی ہو گئی۔(سیرت ابن ہشام مترجم: جلد اوّل) فاطمہ بنت ِمحمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی قانون سے مستثنیٰ نہ تھیں :قبیلہ مخزوم کی ایک عورت چوری کے جرم میں پکڑی گئی، وہ ایک امیر گھرانے کی خاتون تھی۔ سردارانِ قریش نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو بارگاہِ رسالت میں سفارش کے لئے بھیجا جنہیں آپ بہت زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ کی عزت کا خیال کرتے ہوئے یقیناسزا میں تخفیف کر دیں گے۔ اس کے برعکس جب حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی بات سنی تو آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا، آپ نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا: ”تم سے پہلی قومیں اسی لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب اُن میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو اُسے چھوڑ دیتے تھے لیکن جب کوئی عام آدمی چوری کرتا تو اس کو سزا دیتے تھے۔ الله کی قسم! محمد کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا“ (صحیح بخاری ومسلم) یہ ہے انصاف کا وہ عالی قدر نمونہ کہ اگر مجرم اپنی اولاد بھی ہو تو اسے معاف نہ کیا جائے! ہجرتِ مدینہ کے موقع پر:جب کافروں کے ظلم و ستم حد سے بڑھ گئے تو آپ اللہ کی اجازت سے مکہ کو خیرباد کہہ دیا، اس وقت بھی لوگوں کی امانتیں آپ کے پاس تھیں ۔ مدینہ چھوڑتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوحکم دیا کہ اگلے دن یہ امانتیں ان کے مالکوں کو لوٹا کر تم بھی مدینے چلے آنا۔ (سیرت ابن ہشام جلد اوّل) یہ امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ لوگوں کا اس بات پر یقین کامل تھا کہ آپ کے پاس جو بھی چیز رکھ دی جائے، وہ انہیں اسی طرح واپس مل جائے گی۔ یہ بھی آپ کی منصف مزاجی و امانت داری کی منہ بولتی دلیل ہے۔ جنگ بدر کے قیدی:حسن سلوک کے سلسلے میں سرکارِدو عالم کی مساوات پسندی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اپنے اعزہ و اقارب کو بھی عام قیدیوں کی طرح رکھا اور ان کے ساتھ کوئی امتیازی برتاؤ پسند نہ کیا۔ اسیرانِ بدر کی مدینہ منورہ میں پہلی رات تھی اور مسلمانوں نے انہیں خوب کس کر باندھ رکھا تھا۔ ان میں رحمت ِدو عالم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ وہ پروردہٴ نازونعم انسان تھے۔ اس لئے ہاتھ پاؤں کی بندشیں انہیں بہت تکلیف دے رہی تھیں اور وہ درد سے کراہ رہے تھے۔ سرورِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا کراہنا برداشت نہیں ہو رہا تھا‘ اس لئے آپ بھی جاگ رہے تھے اور مضطرب پھر رہے تھے۔ آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر ایک صحابی نے عرض کی :”یا رسول الله! مزاجِ عالی کیوں بے قرار ہے؟“