کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 47
دورہ تھا۔ حقیقی انصاف نام کی چیز دنیا سے ناپید تھی۔ حالانکہ عدل و انصاف کرنا سب سے مقدم اور اہم فریضہ ہے اس لیے کہ عدل و انصاف کے بغیر معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا اور نہ انسانی حقوق کی ادائیگی ہو سکتی ہے۔ اس لئے آپ نے عدل و انصاف کو قائم کرنے کا حکم دیا۔ اس متاعِ بے بہا کو دنیا میں اس طرح متعارف کروایا کہ آپ کے فیصلوں کو مد ِنظر رکھتے ہوئے کئی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ آپ کی مثالی زندگی کے چند روشن واقعات حسب ِذیل ہیں جو آپ کی شخصیت کے اس پہلو کو اجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوں گے : سردارانِ قریش:قریش اور عرب کے سرداروں نے حضور علیہ الصلوٰة والسلام سے کہا: ہم تمہارے پاس کیسے آ کر بیٹھیں ‘ تمہاری مجلس میں ہر وقت غریب‘ مفلس اور نچلے طبقے کے لوگ بیٹھے رہتے ہیں ۔ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹاؤ تو ہم آ کر بیٹھیں گے۔ مگر وہ نبی جو رنگ و نسل‘ خاک و خون کے بتوں کو توڑنے کے لئے آیا تھا، اُس نے ان سرداروں کی خاطر غریبوں کو دھتکارنے سے انکار کر دیا…یہ واقعہ مفسرحافظ ابن کثیر نے سورة الانعام کی آیت ۵۲ کی تفسیر میں ذکر کیا ہے جو اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ آپ کی نظر میں ذات پات کی کوئی تمیز اور ادنیٰ و اعلیٰ کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ الصادق و الامین:جبکہ ہر طرف عیاشی کا چرچا اور دھڑے بندی کا دور دورہ تھا، شراب‘ جوا‘ زنا اور جھوٹ جیسی برائیاں عام تھیں ، اس دور میں بھی لوگ آپ کو ’الصادق و الامین‘ کے نام سے پکارتے اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے جو آپ کے منصف ہونے کی روشن دلیل ہے۔ واقعہ حجر اسود:حجر اسود کے واقعہ کی تفصیل اس طرح ہے کہ خانہٴ کعبہ کی دیواریں سیلاب کی وجہ سے گر چکی تھیں ۔ تمام قبائل نے اُسے دوبارہ تعمیر کرنے میں یکساں کردار ادا کیا تھا۔ لیکن جب حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کرنے کا موقعہ آیا تو ہر قبیلے کی یہی خواہش تھی کہ یہ شرف انہیں ہی نصیب ہو۔ اب قریب تھا کہ تلواریں میانوں سے باہر آ جائیں ، ہر طرف خون کی ندیاں بہنا شروع ہو جائیں ۔ سمجھ دار لوگ اس معاملے کو نمٹانے کے لئے کعبہ میں جمع ہوئے اور طے پایا کہ کل جو شخص سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہو اُسے حَکمَ (جج) مان لیا جائے اور وہ جو فیصلہ کرے، وہ سب کے لئے قابل قبول ہو گا۔ اس تجویز پر سب رضامند ہو گئے۔ دوسرے دن سب نے دیکھا کہ ’الامین‘ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں سب سے پہلے داخل ہو رہے ہیں ۔ سب پکارے اٹھے : هذا محمد ، هذا الأمين قد رضينا به ”لو، محمد صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے، ان کے فیصلہ پر تو ہم سب ہی خوش ہیں “ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے چادر میں حجر اسود کو رکھا اور سب قبیلوں کے سرداروں کو