کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 46
مقالات ڈاکٹر محمد صالح طاہر ( عدل وانصاف کے پیکر …حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عدل کی تعریف ہمارے چند ممتاز اکابرین اس طرح فرماتے ہیں : (۱) حضرت علی ہجویری و امام غزالی کی نظر میں عدل کا مفہوم یہ ہے کہ ”کسی چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھا جائے“ (۲) سید سلیمان ندوی اس کا مفہوم یہ بتاتے ہیں کہ ”جو بات ہم کہیں یا جو کام کریں اس میں سچائی کی میزان کسی طرف جھکنے نہ پائے“ (۳) سید ابو ا لاعلیٰ مودودی کی نظر میں ”عدل کا تصور دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے: ایک یہ کہ لوگوں کے درمیان حقوق میں توازن و تناسب قائم ہو، دوسرے یہ کہ ہر ایک کو اس کا حق بے لاگ طریقے سے دیا جائے…“ گویا عدل و انصاف کے معنی ہیں ہر ایک انسان اور ذی روح سے یکساں اور مناسب سلوک کرنا، تمام لوگوں کو ایک ہی نظر سے دیکھنا، امیر و غریب،گورے کالے، عربی عجمی‘ اور شاہ گدا کی تمیز کو ختم کرنا۔ ایک اچھے منصف کے لئے یہ بات لازم ہے کہ وہ ان سب کو ایک ہی نظر سے دیکھے۔ اس طرح کے مثالی منصف کو نڈر و بیباک‘ بے لوث و بے غرض اور صادق و امین ہونا چاہیے تاکہ وہ ہر کسی کے ساتھ انصاف روا رکھ سکے اور لوگ اس کے سابقہ کردار کو اچھی طرح جانتے ہوں تاکہ سب کو اطمینان ہو کہ اُن کے ساتھ ہر حال میں انصاف ہی ہو گا۔ آئیے ذرا اس ہستی کے شب و روز کا مطالعہ کریں جسے حق تعالیٰ نے رحمت للعالمین بنا کر بھیجا۔ تاریخ کی ورق گردانی سے یہ حقیقت ہم پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جب بھی آپ کے سامنے کوئی مقدمہ یا مسئلہ لایا گیا تو آپ نے بلا امتیازِ رنگ و نسل و مذہب ہر کسی کے ساتھ انصاف کیا۔ خواہ آپ سے انصاف کا طالب کوئی اپنا تھا یا غیر…! اللہ وحدہُ لا شریک اس بات پر شاہد ہے کہ اُس نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو اس جہاں میں منصف ِاعلیٰ بنا کر بھیجا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام بہت جلد عام لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا۔ ورنہ آپ سے قبل دنیائے عرب جہالت و گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈبکیاں کھا رہی تھی۔ ہر طرف ظلم و ستم کا دور
[1] ڈپٹی سیکرٹری : گورنر ہائوس، لاہور