کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 44
اختلاف نہیں جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے:
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبداللہ ذی نجا دین کی قبر پردیکھا، جب دفن سے فارغ ہوئے تو قبلہ رُخ ہاتھ اٹھا کر دعا کی‘‘ (أخرجہ أبوعوانۃ فی صحیحہ ، فتح الباری ،۱۱/۱۴۴)
تمام خیر سنت نبوی کی پیروی میں ہے ، اور بدعت میں شر ہی شر ہے ۔اللہ ربّ العزت جملہ مسلمانوں کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشے۔ آمین!
٭ سوال:اگر کوئی آدمی نکاح نامے پر دستخط کردے اور اپنی زبان سے اس بات کا اقرار نہ کرے جیسے یہ الفاظ کہے جاتے ہیں: کیا آپ کو اس لڑکی کے ساتھ نکاح قبول ہے…آیا اس طرح کرنے سے اس کا نکاح ہوجائے گا یا نہیں؟
جواب: ظاہر ہے کہ نکاح نامہ پر دستخط نکاح کی طلب کے بعد ہی کئے گئے ہوں گے ۔ اندریں صورت یہ قبول کے ہی قائم مقام ہے…صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ ایک شخص کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پر نکاح کیا تھا( باب التزویج علی القرآن) کسی روایت میں نہیں کہ ایجاب کے بعد اس نے کہا ہو کہ مجھے قبول ہے۔ اس حدیث میں اس کی چاہت ہی کو قائمقام قبول قرار دے کر انعقادِ نکاح کو قابل اعتبار سمجھا گیا ہے۔ صحیح بخاری کی عنوان بندی ان الفاظ میں ہے ’’باب إذا قال الخاطب للولی زوّجنی فلانۃ فقال قد زوجتک بکذا وکذا جاز النکاح وإن لم یقل للزوج اَرَضِیْتَ اَوْ قَبِلْتَ‘‘
’’باب اس بارے میں کہ جب نکاح کرنے والا (لڑکا) ولی سے کہے کہ میرا فلاں لڑکی سے نکاح کردیں اور ولی جواب میں کہے کہ میں نے اتنے مہر او رفلاں شرائط پر تیرا نکاح کردیا تو نکاح ہوجائے گا ، اگر چہ وہ لڑکے سے پھر نہ پوچھے کہ کیا تو راضی ہے یا تو نے قبول کیا؟‘‘
اس طرح مذکورہ حالت میں نکاح نامہ پر دستخط قبول کے ہی قائمقام ہے اور نکاح درست ہے۔ نیز شریعت میں بولنے کے علاوہ محض عمل کو بھی قابل اعتبار سمجھا گیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری باب الطلاق فی الاغلاق… الخ کے تحت حدیث ہے:
’’إن اللّٰہ تجاوز عن أمتی ماحدثت بہ أنفسھا، مالم تعمل أوتتکلم ‘‘
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت کی دل میں کی گئی باتوں سے درگزر فرمایا ہے جب تک کہ وہ ان کا اظہا ر نہ کردیں یا ان کو عملی جامہ نہ پہنائیں‘‘
اس حدیث سے اہل علم نے استدلال کیا ہے کہ طلاق تحریر میں آنے سے واقع ہوجاتی ہے۔ حافظ ابن حجر رقم طراز ہیں ’’واستدل بہ علی أن من کتب الطلاق طلقت امرأتہ لأنہ عزم بقلبہ وعمل بکتابتہ وھو قول الجمہور‘‘ (فتح الباری: ۹/۳۹۴)
’’اس بات سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جو طلاق لکھ دیتا ہے تو اس کی بیوی کو طلاق ہوجاتی ہے