کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 43
بلاشبہ شرع میں دعا کی بالعموم تاکید ہے ۔غالباً اس بنا پر فقہاءِ حنفیہ نے جنازہ میں قراء ت سے استغنائی پہلو اختیار کرکے اس کا نام دعاء وثناء وغیرہ رکھا ہے۔ موطا ٔ امام محمد میں ہے ’’لا قراء ۃ علی الجنازۃ وھو قول أبی حنیفۃ‘‘ اور یہ قول المبسوط للسرخسی رحمۃ اللہ علیہ میں بھی ہے (۲/۶۴) … البتہ محقق ابن الہمام فتح القدیر (۱/۴۸۹) میں فرماتے ہیں : ’’فاتحہ نہ پڑھے تاہم بہ نیت ِثنا پڑھی جاسکتی ہے۔کیونکہ قراء ت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں‘‘ علامہ ابن الہمام جیسے محقق کی یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے، اس لئے کہ فاتحہ کی قراء ت کا اثبات تو صحیح بخاری میں موجود ہے: باب قراء ۃ فاتحۃ الکتاب علی الجنازۃ۔ تو پھر کیا یہ بات معقول ہے کہ اثناءِ جنازہ میں اخلاصِ دعا کی تاکید تو نہ ہو، لیکن سلام پھیرنے کے بعد کہاجائے کہ اب اِخلاص سے دعا کرو۔ غالباًا س دھوکہ کے پیش نظر حنفی بھائی نمازِ جنازہ کا تو جھٹکا کرتے ہیں، بعد میں لمبی لمبی دعائیں کی جاتی ہیں جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔ اصولِ فقہ کا قاعدہ معروف ہے کہ ’’عبادات میں اصل حظر (ممانعت)ہے، جواز کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ عہد ِنبوت میں کتنے جنازے پڑھے گئے، کسی ایک موقع پر بھی ثابت نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازجنازہ کے بعد دعا کی ہو۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے: "من أحدث فی أمرنا ہذا مالیس منہ فھو ردّ" ’’ جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے‘‘ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: علیک بالأثر وطریقۃ السلف وإیاک وکل محدثۃ فإنھا بدعۃ ’’آثار اور طریقہ سلف کو لازم پکڑو، اپنے آپ کو دین میں اضافہ سے بچائو وہ بدعت ہے‘‘ (ذمّ التاویل از ابن قدامہ) ابن الماجشون نے کہا کہ میں نے امام مالک سے سنا، وہ فرماتے تھے: ’’جو دین میں بدعت ایجاد کرکے، اسے اچھا سمجھے تو گویا وہ یہ باور کراتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت میں خیانت کی ہے،اس لئے کہ اللہ کا فرمان ہے ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ جو شے اس وقت دین نہیں تھی، وہ آج بھی دین نہیں بن سکتی‘‘ امام شافعی فرماتے ہیں: ’’جس نے بدعت کو اچھا سمجھا اُسنے نئی شریعت بنا لی‘‘ (السنن والمبتدعات ) رہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اَثر (فعل صحابی ) تو اس کا تعلق نمازِ جنازہ کے متصل بعد سے نہیں بلکہ اس کا تعلق دفن میت کے بعد سے ہے کیونکہ مصنف نے اس اثر پرجو عنوان قائم کیا ہے اور اس کے تحت مذکورہ جملہ آثار اسی بات پر دلالت کرتے ہیںکہ اس دعا کا تعلق تدفین میت کے بعد سے ہے ، عنوان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے’’…فی الدعاء للمیت بعد مایدفن ویسوی علیہ‘‘ قبر پر مٹی برابر کرکے میت کے لئے دعا کرنے کا بیان۔ اور تدفین کے بعد میت کے لئے دعا کرنا ثابت شدہ امر ہے جس میں کسی کا کوئی