کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 42
اور مستدرک حاکم میں حضرت ابوامامہ کی روایت میں ہے: ’’ویخلص الصلاۃ فی التکبیرات الثلاث‘‘ یعنی جنازہ کی تین تکبیروں کے دوران اِخلاص سے دعا کرے۔ مستدرک حاکم کی اس حدیث سے اس امر کی وضاحت ہوگئی کہ دعا کا تعلق خالصۃ ً حالت ِنماز کے ساتھ ہے نہ کہ بعد از نماز سے۔
اصو لِ فقہ کا معروف قاعدہ ہے کہ الأحادیث یفسربعضھا بعضا ’’احادیث ایک دوسری کی تفسیر کرتی ہیں‘‘،اس بنا پر اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب تم نمازِ جنازہ پڑھنا چاہو تو میت کے لئے خلوص کے ساتھ دعا کرو۔ یہ إقامۃ المسبب مقام السبب (سبب بول کر مسبّب مراد لینا)کی قبیل سے ہے، ارادہ سبب اور نماز مسبّب ہے۔ حدیث کے الفاظ فَاَخْلِصُوْامیں ’فاء‘ کے ترتیب و تعقیب بلامہلت ہونے کا یہی مطلب ہے…اگر مقصود یہاں نماز جنازہ سے فراغت کے بعد دعا ہوتی تو پھر فاء کی بجائے لفظ ثُمَّ ہونا چاہئے تھا جو عام حالات میں ترتیب اور تراخی کا فائدہ دیتا ہے۔ احناف کی یہ توجیہ غلط ہے کہ فاء تعقیب کا یہ مطلب ہے کہ نماز کے بعد دعا کی جائے۔
علاوہ ازیں یہ حدیث سنن ابوداود اور سنن ابن ماجہ وغیرہ میں ہے اور امام ابوداود نے اس حدیث کو جنازہ کے دوران دعا پڑھنے کے ضمن میں ذکر کیا ہے انہوں نے اس پر عنوان یوں قائم کیا ہے: باب الدعا للمیت اور اس حدیث پر امام ابن ماجہ کی تبویب بھی ملاحظہ فرمائیں اور بار بار غور سے پڑھیں:
’’باب ماجاء في الدعاء فی الصلاۃ علی الجنازۃ‘‘ یعنی نمازِ جنازہ میں دعا کے بارے میں جو کچھ آیا ہے، ا س کا بیان …اس سے معلوم ہوا کہ محدثین اور احناف کے فہم میں زمین آسمان کا فرق ہے لہٰذا ا س تحریف پر انہیں ندامت کا اظہار کرکے حق کی طرف رجوع کی فکر کرنی چاہئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’مراجعۃ الحق خیر من التمادي فی الباطل‘‘ باطل پر اصرار سے بہتر ہے کہ آدمی حق کی طرف رجوع کرلے ۔ (إعلام الموقعین)
اس کی مثال یوں سمجھیں جیسے قرآنِ مجیدمیں ہے ﴿ فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ﴾(النحل: ۹۸) ’’جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو‘‘۔ ائمہ لغت زجاج وغیرہ نے اس کا معنی یوں بیان کیا ہے
’’إذا أردت أن تقرأ القرآن فاستعذ باللہ ولیس معناہ استعاذ بعد أن تقرأ القرآن‘‘ ’’جب آپ قرآن کی تلاوت کا ارادہ کریں تو اللہ سے پناہ مانگ لیا کریں، اس کا یہ معنی نہیں کہ تلاوت ِقرآن کے بعد أعوذ باﷲ پڑھا کرو‘‘ …ا سی کی مثل قائل کا قول ہے:’’إذا أکلت فقل بسم اللہ‘‘ یعنی جب تو کھانے کا ارادہ کرے تو بسم اللہ پڑھ، اس کا قطعاً یہ معنی نہیں کہ کھانے سے فراغت کے بعد بسم اللہ پڑھنی چاہئے‘‘…امام واحدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’فقہاءِ کرام کا اس بات پراجماع ہے کہ استعاذہ قرا ء ت سے پہلے ہے‘‘۔ (تفسیر فتح القدیر: ۳/۱۹۳)