کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 41
دار الافتاء شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی جامعہ لاہور الاسلامیہ ٭ کیا میت کے لئے نمازِ جنازہ سے فراغت کے فوراً بعد دعا کرنا جائز ہے؟ ٭ نکاح نامے پر دستخط کرکے زبان سے قبول نہ کرنے والے دولہا کانکاح ٭سوال: کیا نکاح چوری چھپے ہوسکتاہے؟ ( محمد اسلم رانا ، مدیر المذاھب) جواب :چوری چھپے نکاح کرنا ناجائز ہے۔ حدیث میں ہے :’’جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے، اس کا نکاح باطل ہے‘‘۔ مشکوٰۃ باب الولی فی النکاح اور دوسری روایات میں ہے کہ وہ عورتیں بدکارہیں جو گواہوں کے بغیر اپنا نکاح کرلیتی ہیں والأصح أنہ موقوف علی ابن عباس(سنن ترمذی) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پا س ایک نکاح کامعاملہ پہنچا جس میں ایک مرد اور عورت گواہ تھے ، فرمایا: یہ پوشیدہ نکاح ہے ، میں اسے جائز نہیں سمجھتا، اگر مجھے پیشگی علم ہوجاتا تو میں رجم کر چھوڑتا کیونکہ اس نکاح میں گواہی مکمل نہیں ۔ واضح ہو کہ جمہور کے نزدیک نکاح میں کم از کم دو عادل گواہ ہونے ضروری ہیں۔ امام مالک فرماتے ہیں: وہ نکاح پوشیدہ ہے جس میں گواہوں کو چھپانے کی تلقین کی گئی ہو۔ (شرح الزرقانی ۳/۱۴۵) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’لا نکاح إلا بولی وشاھدي عدل‘‘( احمد ،طبرانی ،بیہقی وغیرہ باسناد صحیح) یعنی ’’ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا‘‘ صاحب ِمشکوٰۃ نے متعدد احادیث بیان کیں ہیں جن میں اعلانِ نکاح کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ٭ سوال: نماز جنازہ سے فارغ ہوچکنے کے بعد میت کے لئے دعا مانگنا شرعاً کیسا ہے؟ کیا حدیث إذا صلیتم علیٰ المیت فأخلصوا لہ الدعاء (جب تم میت کی نماز جنازہ پڑھو تو اس کے لئے خصوصی طور پر دعائیں کرو)او رابن شیبہ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کہ ’’انہوں نے نماز جنازہ پڑھی پھرمیت کے لئے دعا‘‘ کی ، سے اس کا جواز نکلتا ہے؟ جواب: بحث طلب مسئلہ یہ ہے کہ آیا نماز جنازہ سے فارغ ہوچکنے کے فوراً بعد میت کے لئے دعا کی دعا کا جواز ہے یا نہیں؟…نمازِ جنا زہ کے بعد دعا مانگنے کی دلیل کے طور پر ، سوال میں مذکور دو روایات پیش کی جاتی ہیںلیکن درست بات یہ ہے کہ میت کے لئے دعا نماز جنازہ کے دوران مانگی جائے۔پہلی حدیث کی تشریح بقول علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ یوں ہے : ’’ میت کیلئے اخلاص کے ساتھ دعا کرو کیونکہ اس نماز سے مقصود صرف میت کیلئے سفارش کرنا ہے جب دعا میں اِخلاص اور عاجزی ہوگی تو اسکے قبول ہونے کی امید ہے‘‘ (عون المعبود: ۳/۱۸۸)