کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 40
کرنے کی بجائے اجتماعی کھاتہ میں جمع کروا دیتے تھے۔انفرادی طور پر دنیا پسندیدہ نہیں ہے۔ پیدل جانا: نماز عید کے لئے عیدگاہ کی طرف پیدل جانا بہتر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں متعدد احادیث آئی ہیں ۔ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی مسلک اور عمل ہے۔ تبدیلی راستہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک راستہ سے جاتے تھے اور دوسرے سے واپس تشریف لاتے اور راستہ میں تکبیراتِ عید کہتے۔ عورتیں بھی جائیں : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے عید گاہ جانے پر بھی زور دیا ہے حتیٰ کہ کسی عورت نے نماز نہ پڑھنی ہو تو بھی جائے۔ صرف خطبہ سن لے اور اجتماعی دعا میں شامل ہوجائے۔ لیکن عورتوں کو سادہ لباس پہن کر جانا چاہئے۔ بھڑکیلے لباس سے قطعاً پرہیز کرنا چاہئے۔ پاؤں کے جوتے بھی سادہ ہوں ، خوشبو لگاکر ہرگز نہ جائیں ۔ نماز کا وقت اور جگہ: طلوعِ آفتاب سے قبل زوال تک نمازِ عید کا وقت ہے۔ لیکن اول وقت میں ادا کرنا بہتر ہے۔ نماز شہر سے باہر کھلے میدان میں ادا کرنا چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف بارش کے موقع پر مسجد میں نمازِ عید ادا کی ہے ۔ عیدگاہ میں منبر نہیں ہونا چاہئے۔ اذان اور اقامت: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کیلئے کبھی اذان و اقامت نہیں کہلوائی (بخاری) نماز کا طریقہ : عید کی نماز دو رکعت ہے اور تکبیر تحریمہ کے علاوہ ۱۲ تکبیریں ہیں ۔ پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ قراء ت سے پہلے کہنی چاہئیں ۔ پہلے نماز پھر خطبہ: عیدگاہ جاکر امام پہلے نماز ادا کروائے پھر خطبہ دے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاءِ راشدین رضی اللہ عنہم کا یہی دستور رہاہے۔ سورتیں : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سورة فاتحہ کے بعدپہلی رکعت میں سورة الاعلیٰ اور دوسری میں سورة الغاشیہ، بعض اوقات پہلی میں سورة ق اور دوسری میں سورة القمر اور اسی طرح بعض دفعہ پہلی میں سورة الانبیاء اور دوسری میں سورةالشمس پڑھا کرتے تھے۔ نفلی نماز نہیں : عید کے دن نما زِعید سے پہلے یا بعد کوئی نفلی نماز نہیں ہے۔ خطبہ عید : امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : لا ينصرف حتی ينصرف الامام (موطأ) یعنی ”خطبہ عید سنے بغیر کوئی آدمی عید گاہ سے نہ جائے“ مبارکباد: عید کے روزصحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں ملتے تو یہ کہتے: تقبل اللّٰه منا ومنک (فتح الباری) یعنی اللہ تعالیٰ ہم، تم سب سے قبول فرمائے۔ نماز کی قضا: اگر عید کی نماز رہ جائے تو دوسری نمازوں کی طرح اس کی قضا دی جاسکتی ہے (بخاری) عید کے بعد چھ روزے: حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھ لئے، اس کو سال بھر کے روزوں کا ثواب ہے“