کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 4
کیا، جس کی ربوبیت ان کے جسم کے ایک ایک ذرے اور خون کے ایک ایک قطرہ کو پالتی اور ہلاکت سے بچاتی ہے، جو ان کی فریادوں اور دکھ درد کے وقت سنتا او رجب وہ ہر طرف سے مایوس ہوجاتے ہیں تو انہیں اُمید اور مراد بخشتا ہے، سو اس ربّ الارباب کے لئے ان مغروران کے پاس عاجزی کا ایک سجدہ، بندگی کی ایک پیشانی، بے قراری محبت کی ایک پکار، تقویٰ اور احتساب کا ایک روزہ، اور خلوص و صداقت کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کا ایک کھوٹا پیسہ بھی نہیں ہے : ﴿ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴾(۳۷:۶۲) ”پس صد افسوس او ر صد حسرت ان دلوں پر جو ذکر الٰہی کی طرف سے بالکل سخت ہوگئے ہیں اور یہی لوگ ہیں کہ جو بڑے ہی پرلے سرے کی گمراہی میں مبتلا ہیں “ ایمان باللہ انسان کے تمام کاموں میں جو یقین کا رسوخ اور اعتماد کا استحکام ہے، اسی کو شریعت ’ایمان‘ کے لفظ سے تعبیر کرتی ہے۔ لیکن ان کے دل میں ایمان کا درخت مرجھا گیا ہے، اس لئے اعمالِ صالحہ کے پھل نہیں لگتے۔ اللہ کا تصور یا تو محبت کی شکل میں انسان کو اپنی طرف کھینچتا ہے یا خوف کی عظمت و ہیبت دکھلا کر اپنے آگے جھکاتا ہے۔ اس کے دیکھنے والوں نے ہمیشہ انہی دو نقابوں میں سے اسے دیکھا ہے۔ پر نہ تو ان کے دلوں میں محبت ہے کہ اپنے محبوب کے لئے دکھ اُٹھائیں اور نہ خوف ہے کہ ڈر کر اور ہیبت میں آکر اس کے آگے جھک جائیں ۔ اللہ کے رشتے کی کوئی زنجیر ان کے پاؤں میں نہیں رہی کیونکہ نفس و شیطان کی غلامی کے طوق ان کے گلوں پر پڑ گئے : ﴿اِنَّا جَعَلْنَا فِیْ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلَالًا فَهِيَ اِلیٰ الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ﴾(۳۸:۸) ”ہم نے گمراہی اور شیطان کی غلامی کے طوق ان کی گردنوں میں ڈال دیئے جو ان کی ٹھوڑیوں تک آگئے ہیں اور ان کے سرپھنس کے رہ گئے ہیں “ پس ان کی فطرت کو عبودیت ِالٰہی سے کچھ اس طرح کی اجنبیت ہوگئی ہے کہ اگر ایک لمحہ اور ایک دقیقہ بھی اس کی عبادت و ذکر میں بسر کرنے کے لئے کہا جاتا ہے، تو انہیں ایسا معلوم ہوتا ہے، گویا کسی بڑی ہی سخت مصیبت اور بڑے ہی جانکاہ عذاب میں پڑ گئے ہیں ۔ حالانکہ اصلی عذاب کی انہیں خبر نہیں جس میں واقعی پڑنے والے ہیں اور جو واقعی سخت و جانکاہ ہے: ﴿قُلْ اَفَأنُبِّئُکُمْ بِشَرِّ مِنْ ذٰلِکُمْ؟ النَّارُ، وَعَدَهَا اللّٰهُ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ﴾ ”اے پیغمبر! ان سے کہہ دے کہ تمہیں ذکر الٰہی سے بڑی ہی تکلیف ہوتی ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر ایک مصیبت کی تمہیں خبر دوں جو آنے والی ہے: آتش دوزخ …جس کا اللہ نے منکروں سے وعدہ کیا ہے اور جو بڑا ہی برا ٹھکانا ہے“ (۲۲:۷۰)