کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 38
کہ وہ عید کے اجتماع میں شریک ہوجائیں لیکن اس اجتماع کو بھی جاہلی جلوسوں سے ممتاز رکھا۔بلکہ ہر آدمی انفرادی طور پر مقامِ عید پرپہنچ کرنماز میں شریک ہو۔نماز سے فارغ ہو کرانفرادی طور پر واپس گھر پہنچ جائے نہ جلوس نکلنے کے لئے مقام کا تعین فرمایا،نہ جلوس کے اختتام کے لئے کوئی میدان مقرر فرمایا گیا۔ اجتماع کو صرف عبادت تک محدود رکھا۔ اللھم صل وسلم علیہ … پورے دن کی مسرت، لباس، خوراک ،خوش طبعی کی انفرادی مجالس تک محدود ہوگئی اور ہنگامہ بپا نہ کیا گیا۔
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹی بچیاں پرانی جنگوں کے واقعات کو اَشعار اور نظموں کی صورت میں خوش الحانی سے پڑھتی تھیں ۔ اس میں بھی مبالغہ آمیزی، غلو اور فحش گوئی ممنوع تھی۔ ایک لڑکی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں فرمایا: وفينا نبی يعلم ما في غد ”ہمارے نبی کل کی باتیں جانتے ہیں “ تو اسے روک دیا۔چھوٹے بچے، نابالغ بچیاں اپنے قومی محاسن اور مشاعر کو نظموں میں پڑھیں ، خوش آوازی سے پڑھیں ، اس میں کچھ حرج نہیں ۔ملی ذہن کو عبوست اور بدمزاجی سے بچانا چاہئے۔ یہی عید کی روح ہے۔
ایک عید بھوک کی یادگار ہے۔رمضان المبارک خوراک کے عادت سے ہٹ کرجاری نظام کے ساتھ ختم ہوا۔ اس امتحان میں کامیابی کے بعد ایک دن مسرتوں کے لئے وقف ہوگیا۔ دوسری عید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت اسماعیل علیہ السلام ، حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی جفاکشی اور ہجرت اور ان مصائب میں کامیابی پر مسرت فرمائی گئی۔ اس پاکیزہ خاندان کی وفاداریوں ، اور صبرآزمایوں کو تاریخی حیثیت عنایت فرما کربقاءِ دوام عطا فرمایا گیا ﴿وَترَکْنَا عَلَيْهِ فِيْ الاٰخِرِيْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی إبْرَاهِيْمَ﴾
ملت کو اَغیار کی نقالی سے بچایا اور اپنی تاریخ کوعملاً زندہ فرما دیا گیا۔ اَکابر کی قربانیاں آنے والوں کے لئے اُسوہ اور زندگی کا پیغام بن گئیں ۔ عید کے موقع پر اظہارِ مسرت کے لئے جنگی مشقوں کی اجازت مرحمت فرمائی۔ تھوڑے عرصہ کے لئے یہ مشقیں صحن مسجد کی زینت بنیں او رجہاد اور دفاع کے پیش نظر مرد تو اسے دیکھتے ہی تھے۔ عورتوں کو بھی اجازت دی گئی کہ اگر وہ پسند کریں تو اس دلنواز منظر کوملاحظہ کریں ۔ مجاہد پیدا کرنے والی مائیں جہا دکی عملی تربیت اور دفاع کی کارگزاریوں سے دلشاد ہوں اور اس انداز سے کہ اس کااخلاق پر بھی کوئی اثر نہ پڑے۔
ضرورت ہے کہ آج کی عید کوزندہ عید کی صورت دی جائے۔ ہمارے ہاں عید کی خوشی میں خباثت اور بداخلاقی کے دفترکھل جاتے ہیں ۔ دن میں کئی کئی شو ہوتے ہیں ۔ اخلاقی انارکی سے نوجوان ذہن ماؤف ہوتا ہے۔ عیاشی کی راہ سے طبائع پر وہن اور جبن کا استیلاء ہوتا ہے۔ نوجوان جرأت و شجاعت کی بجائے ذلیل حرکات پراُتر آتے ہیں ۔جوکچھ ان شیطانی گھروندں میں دیکھتے ہیں ، اسے عملی صورت دے کر اپنے لئے موت او رماں باپ کے لئے شرمساری کے سامان مہیا کرتے ہیں ۔ یہ معکوس ترقی ہے جس کی طرف اکابر ملت اور قیادتِ کبریٰ کوجلد سے جلد توجہ دے کر اس کی اصلاح کرنی چاہئے۔ معلوم ہے کہ