کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 37
۱۔خوشی اور مسرت زندگی کا جزو ہے۔ چہرہ میں عبوست(تیوری) اور مزاج کی خشکی، نہ دیانتداری اور تقویٰ کی نشانی ہے، نہ ہی اسلام نے زندگی کے اس انداز کو پسند فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش مزاج تھے۔ بچوں تک سے مذاق فرماتے، بوڑھوں سے خوش طبعی کی باتیں کرتے۔پھرعجیب یہ ہے کہ اس مذاق میں نہ فحش ہوتا نہ جھوٹ۔بظاہر خوش طبعی اور مذاق ہوتا اور مقصد صحیح ہوتا۔ ایک آدمی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لئے اونٹ طلب کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لأحملنک علی ولد الناقة ”میں تمہیں اونٹ کے بچے پرسوار کروں گا“ سائل پریشان ہوا اور اس نے کہا: حضرت! میں بچے کوکیاکروں گا۔ حضرت نے فرمایا: هل تلد الجمل إلا الناقة اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہوتاہے۔ ایک ابو عمیر نامی بچے کی چڑیا مرگئی، آپ نے مزاحاً فرمایا: يا أبا عمير ما فعل النغير ”ابوعمیر! تمہاری چڑیا کوکیا ہوا ؟“ ہمارے بعض علماء اور صوفی حضرات چہرے کی عبوست کانام تقویٰ اور زہد سمجھتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش مزاق تھے، اس کے ساتھ طبیعت کا رجحان فحش کی طرف قطعاً نہ تھا: لم يکن فاحشا ولا متفاحشا (شمائل) ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فحش گو نہیں تھے، نہ تلخ کلام! ۲۔دوسری قوموں کی نقالی قطعاً پسند نہیں فرماتے تھے یہ بات حدیث شریف کے اَلفاظ قدأبدلکم اللّٰه بهما خيرا سے بخوبی ظاہر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سابق رواج کو یکسر بدل دیا۔ قوی استقلال کے لئے ضروری ہے کہ غیر مسلم قوموں کی نقالی اور فساق و اہل فجور کی مشابہت سے بچا جائے۔ یہی ایسا مقام ہے جہاں عصبیت کی ضرورت ہے، قومیں اسی طرح قوموں کوہضم کرجاتی ہیں ۔آج ہمارے ہاں تعلیم یافتہ اور یورپ زدہ طبقہ اسی نقالی کامریض ہے۔ کوئی فیشن کتنا قبیح کیوں نہ ہو، ہمارے نوجوان اور ہماری مستورات فوراً اس پر لپکتی ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس جدت پسندی نے اسلامی رسوم و عقائد کے ساتھ وابستگی کم کردی ہے اور اس عصبیت کا فقدان ہمیں اسلام کی روح سے بھی ناآشنا کر رہا ہے۔ ہمارے ایک خاص فرقہ نے ملک میں کئی بدعتیں ایجاد کی ہیں ۔ اسلام اور ائمہ اسلام کے اُسوہ میں اس کی کوئی سند نہیں ، اس لئے وہ غیر مسلم اَقوام کی سنت سے استناد کرتے ہیں ۔ حالانکہ غیر مسلم قوموں کی عادات ہمارے لئے قطعاً اقتدا اور استدلال کے قابل نہیں ۔ شب ِبرأت کی چراغاں ، آتش بازی اور میلاد کے جلوس کسی دینی اساس پر مبنی نہیں اور اب تو یہ عادات تفاحش اور بے حیائی کی حد تک پہنچ رہے ہیں ۔ اگر اس تفاحش کو بروقت نہ روکا گیا تو یقینا مزید خطرات کا موجب ہوگا۔ ۳۔جاہلیت کی عیدوں میں عبادت اور ذکرالٰہی کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔ زیادہ سے زیادہ اس میں شاعری کی راہ سے زبان کی خدمت ہوتی تھی اوروہ بھی آئندہ جنگ کاپیش خیمہ ہوتاتھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی و امی نے عید کے موقع پرمختصر سی عبادت و ذکر الٰہی کا التزام فرمایا۔ مردوں اور عورتوں کو تاکید فرمائی