کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 35
اَحکام ومسائل شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل السلفی رحمۃ اللہ علیہ عید الفطر فلسفہ اور اَحکام عید … دوسری اَقوام میں ! عہد قدیم سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ سال بھر میں ایک یا ایک سے زیادہ دن ایسے ہونے چاہئیں جن میں لوگ روز مرہ کاروبارِ حیات کومعطل کرکے عمدہ لباس پہن کر کسی مرکزی جگہ اکٹھے ہوں اور مختلف تقریبات منعقد کرکے اپنی حیثیت و شوکت کی نمائش کریں ۔ایسے تہواروں کو مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے اور تاریخ و دن کاتعین قوموں نے اپنی تاریخ کے اہم واقعات کی یادتازہ رکھنے کے لئے کیا ہے۔ مثلاً ایرانیوں کی ایک عید یاتہوار کا نام مہرجان ہے جو فریدون بادشاہ نے اپنی ایک فتح عظیم کی یادگار کے طور پر منانے کا حکم دیا تھا۔اہل عرب بھی ایرانیوں کے زیراثر یہ عید منایا کرتے تھے۔ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہدایت پر فرعون کے مظالم سے یومِ نجات کو یومِ عید قرار دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس دن روزہ رکھتے اور عبادت میں مصروف رہے۔ رات کوعید کے دوسرے تقاضے یعنی خوشی و مسرت وغیرہ پورے کرتے۔اَکل و شرب میں توسع فرماتے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ میں آمد تک یہ عید منائی جاتی تھی۔ قریش بھی اس دن کی عزت کرتے اور کعبہ پر غلاف چڑھاتے۔ لیکن جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اُمت نے ان کی شریعت کا ستیاناس کردیا تھا،اسی طرح اس عید کی حقیقی روح کوختم کردیاتھا۔ غیرمسلم اور قدیم اقوام چونکہ اپنے سامنے کوئی نظریہ نہ رکھتی تھیں ۔ اس لئے ان کی یہ عیدیں سوائے لہو و لعب کے اور کچھ نہ ہوتیں ۔ مثال کے طور پر اہل مصر جو عہد قدیم سے عیدیں مناتے چلے آرہے تھے، ان کی عید نو روز جسے قرآن نے یوم الزینۃ سے تعبیر کیا ہے، ہمارے اس دعویٰ کا ثبوت ہے۔ اس موقع پر بہت بڑا میلہ لگتا، دور دور سے لوگ رقص و تماشا میں حصہ لینے کے لئے آتے۔عورتیں بن سنور کر خوشبوئیں لگا کراور بھڑکیلے لباس زیب تن کر کے میلے میں شریک ہوتیں اور مردوں کواپنی طرف مائل کرنے کے لئے اپنے جسم کے بعض حصوں کو عریاں رکھتیں ۔ اس طرح جناب ابراہیم علیہ السلام کی قوم اپنے شہر وں میں بڑی شان و شوکت سے اپنی عید مناتی۔ ساری قوم شہر کے باہر ایک جگہ جمع ہوجاتی۔مردوزَن کامخلوط اجتماع ہوتا اور بے حیائی اور بت پرستی اپنی انتہا پر پہنچ جاتی۔ایسی ہی ایک عید کے موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کے بت خانہ کے بتوں کو پاش پاش کیا تھا۔ اسلام دین فطرت ہے لہٰذا اس نے بھی اپنے نام لیواؤں کے فطری تقاضوں کوپورا کرنے کے لئے خوشی و مسرت کے دو تہوار عنایت کئے ہیں جن کو عربی میں عید کے لفظ سے تعبیر کیا جاتاہے اور وہ ہیں عید