کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 33
مغرب سے زیادہ ہوتا ہے۔ (طبرانی بسند حسن) [1]
اعتکاف کی شرائط و اَحکام
۱۔ اعتکاف کے لئے مسجد[2]شرط ہے، بعض علماء نے جامع مسجد کی شرط لگائی ہے۔
۲۔ اعتکاف یا روزہ مشروع ہے[3]شرط نہیں ۔
۳۔ اعتکاف ایک دن یا رات بھی ہوسکتا ہے بلکہ اس سے کم بھی (بخاری ا زعمر رضی اللہ عنہ … عبدالرزاق از یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ ) (فتح الباری)
محرماتِ اعتکاف
۱۔ جماع… حسن بصری اور زہری نے اس پر کفارہ [4]بھی مقرر کیا ہے۔
۲۔ عیادت نہ کرے۔
۳۔ عورت سے بوس و کنار اور معانقہ وغیرہ سے پرہیز [5]کرے کیونکہ آنحضرت سے اعتکاف کے دوران یہ ثابت نہیں ۔ (زاد المعاد)
۴۔ سوائے ضرورتِ[6] انسانی کے مسجد سے باہر نہ نکلے۔
۵۔ جنازہ میں شرکت نہ کرے۔ [7] (ابوداود از عائشہ موقوفاً)
۶۔ عورت خاوند کی اجازت کے بغیر اعتکاف نہ بیٹھے۔ (ابوداود از عائشہ)
مباحاتِ اعتکاف
۱۔ نہانا، خوشبو یا تیل وغیرہ لگانا (بخاری از عائشہ رضی اللہ عنہا )
[1] نسائی کی ایک روایت میں نماز کے بعد کی صراحت موجود ہے۔
[2] جیسا کہ ابن قیم کا خیال ہے۔ (زاد المعاد)
[3] یہ قول شوکانی کا ہے۔ (نیل الاوطار)
[4] یہ حدیث بیہقی میں بھی ہے۔ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف او رحاکم نے صحیح الاسناد کہا ہے۔ (ترغیب و ترہیب)
[5] اس پر سب علماکا اتفاق ہے سوائے محمد بن عمر مالکی کے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے: لااعتکاف إلا في مسجد جامع (أو مسجد جماعۃ) (ابوداود، مجمع الزوائد) اگر جمعہ سے کم اعتکاف کا ارادہ ہو تو ہرمسجد میں بیٹھ سکتا ہے (عون المعبود)
[6] بعض علما جیسے ابن عباس رضی اللہ عنہما ، ابن عمر رضی اللہ عنہما ، مالک رحمۃ اللہ علیہ ، اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ، ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اعتکاف کے لئے روزہ شرط ہے او ران کی قوی ترین دلیل حدیث ِعائشہ رضی اللہ عنہا ہے: ولااعتکاف إلا بصوم (ابوداود) مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ ، ابن مسعود، حسن بصری، شافعی، احمد ،ابن حجر، شوکانی وغیرہ کے نزدیک شرط نہیں اور یہی راجح ہے۔
[7] چنانچہ مجاہد سے دو دینار منقول ہیں ۔