کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 31
نمازِ وتر کے آخر میں دعا سلام پھیرنے سے پہلے یا بعد[1]میں اس دعاکا پڑھنا بھی ثابت ہے :اَللّٰهمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُ بِرَضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ بِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ لاَاُحْصِيْ ثَنَاءً عَلَيْکَ کَمَا اَثْنَيْتَ عَلیٰ نَفْسِکَ (ابوداود، احمد، نسائی بسند صحیح) ”اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں ، تیری خوشی کی تیرے غصے سے او رتیرے بچاؤ کی تیرے عذاب سے اور پناہ مانگتاہوں تیری تجھ سے، میں تیری تعریف نہیں کرسکتا جیسی تو نے خوداپنی تعریف کی ہے“ فراغت ِوتر کے بعد کے کلمات تین بار… سبحان الملک القدوس کہے ، آخر ی بار بآوازِ بلند۔ ۱۔ وتروں کے بعد دو رکعت کا پڑھنا بھی احادیث ِصحیحہ سے ثابت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دو رکعت خود پڑھیں ۔ (مسلم، احمد، بیہقی از ام سلمہ، ابی امام و عائشہ) نیز پڑھنے کا حکم فرمایا (ابن خزیمہ، دارمی بسندصحیح) ۲۔ پہلی رکعت میں سورة إذا زلزلت الأرض اور دوسری میں قل يا أيها الکٰفرون پڑھے۔ (احمد و بیہقی از ابوامامہ … دارقطنی از انس رضی اللہ عنہ … ابن خزیمہ از عائشہ رضی اللہ عنہا و انس رضی اللہ عنہ ) ایک شبہ اور اس کا حل اگر کوئی کہے کہ نمازِ وتر کے بعد دو رکعت کا پڑھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مخالف ہے:اجعلوا اٰخر صلوتکم بالليل وترا ”وتر رات کی نماز (نمازِ عشاء) کے آخر میں پڑھو“ تو اس کاجواب دو طرح پر دیا گیا ہے : ۱۔ یہ دو رکعت سنت کے قائم مقام ہیں اور وتر کا تکملہ ہیں جیسا کہ نماز مغرب کے بعد دو سنت بطورِ تکملہ پڑھی جاتی ہے۔[2] ۲۔ دو رکعت کا پڑھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا اور آنحضرت کبھی پڑھتے اور کبھی نہیں ۔[3] (۴) لیلۃ القدر لیلۃالقدر کی فضیلت و برکت کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس سے طلب ِثواب کی نیت سے لیلۃ القدر کا قیام کرے اس کے سابقہ اور آئندہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں ( متفق علیہ از ابوہریرہ مرفوعاً … احمد از عبادة بن صامت مرفوعاً)
[1] کیونکہ آپ کے صحابہ میں سے صرف اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے قنوت کو نقل کیا ہے، اگر آپ ہمیشہ پڑھتے تو دوسرے صحابہ بھی نقل کرتے ۔ (صفۃ الصلوٰۃ) … لیکن اگر کوئی شخص اس پر دوام کرے یا ترک کرے تو قابل ملامت نہ ہوگا۔ (زادالمعاد) [2] جیساکہ ابوداود میں ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے اور ترمذی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ [3] امام احمد سے جب قنوت ِوتر میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا: صبح کی نماز میں چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے ہیں اس لئے اس پرقیاس کرکے اُٹھائے جاسکتے ہیں ۔ نیز زادالمعاد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بواسطہ عبداللہ بن سعیدمقبری قنوتِ وتر میں ہاتھ اُٹھانے کی روایت موجود ہے۔ ابن قیم نے عبداللہ کو ضعیف قرار دیا ہے مگر حاکم نے یہی روایت جو کہ بواسطہ احمد بن عبداللہ مزنی لائے، صحیح قرار دیا ہے۔ (زاد المعاد)