کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 30
سکھائے جنہیں میں وترو ں کی قنوت میں پڑھتا ہوں اور وہ یہ ہیں :اَللّٰهُمَّ اهْدِنِيْ فِيْمَنْ هَدَيْتَ وَعَافِنِيْ فِيْمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِيْ فِيْمَنْ تَوَلَّيتَ، وَبَارِکْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ،[1]فَإِنَّکَ تَقْضِيْ وَلاَ يُقْضَي عَلَيکَ، إِنَّه [2]لاَ يَذِلُّ مَنْ وَّالَيْتَ، وَلاَ يَعِزُّ[3] مَنْ عَادَيْتَ، تَبَارَکْتَ[4] رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ، لاَمَنْجَا مِنْکَ إِلاَّ إِلَيْکَ وَصَلّٰي اللّٰهُ عَليٰ النَّبِيِّ[5]
قنوتِ وتر سے متعلق مختلف مسائل
۱۔ قنوتِ وتر واجب نہیں ، یہی مذہب جمہور کا ہے۔[6] ۲۔ قنوت کبھی پڑھنا او رکبھی نہ پڑھنا سنت ہے۔[7]
۳۔ قنوتِ وتر کورمضان کے نصف ِثانی میں بھی پڑھا جاسکتا ہے۔[8] ۴۔ قنوتِ وتر کے ساتھ قنوتِ نازلہ ملائی جاسکتی ہے۔
۵۔ قنوتِ وتر کی دعا کا بعض روایات میں صبح کی نماز میں بھی پڑھنا ثابت ہے۔ ۶۔ قنوتِ وتر میں ہاتھ اُٹھانے کے بارہ میں اگرچہ کوئی صحیح روایت موجود نہیں البتہ حضرت عمر، ابن مسعود رضی اللہ عنہما ، ابن عباس، ابوایوب، ابوخیثمہ، احمد ،[9] اسحق، ابن ابی شیبہ اور بیہقی کے نزدیک جائز ہے مگر ہاتھوں کا چہرے پر پھیرنا ثابت نہیں ۔
[1] ابن ماجہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا یہ قول مروی ہے: کنا نفعل قبل وبعد۔ حافظ ابن حجر نے اس کی سند کو قوی کہا ہے(فقہ السنہ) …آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف روایات اور صحابہ کے اختلافِ عمل کی بنا پر یہ کہنا درست ہے کہ قنوتِ وتر رکوع سے قبل یا بعد میں ہر دو طریق پرپڑھی جاسکتی ہے۔ اختلاف صرف افضل میں ہے نہ کہ جواز میں لہٰذا جو احباب ایسے مسائل میں تشدد سے کام لیتے ہوئے دوسروں کی نماز کے بطلان و فساد کا فتویٰ جڑ دیتے ہیں ، تفقہ في الحدیث سے عاری ہوتے ہیں ۔
[2] مثلاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ ، ابن مسعود رضی اللہ عنہما ، سفیان ثوری رحمہ اللہ ، ابوحنیفہ، اصحاب الرائے، ابن مبارک رحمہ اللہ ، اسحق رحمہ اللہ ، ابن حجر رحمہ اللہ کے علاوہ دورِحاضر کے محدثِ شہیر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے اور ان حضرات کے دلائل دو طرح پر ہیں : ۱۔ احادیث ِمرفوعہ، جنہیں ابوداود اُبی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے اورابن ابی شیبہ و دارقطنی ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں ۔ ۲۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے متعدد اَقوال جو کہ بخاری و مسلم میں موجود ہیں ۔
[3] جیسا کہ امام شافعی، احمد، اسحق، بیہقی، مروزی، عراقی، شوکانی، علامہ عبدالرحمن مبارکپوری صاحب ِتحفۃ الاحوذی اور مولانا شمس الحق صاحب ِعون المعبود و دیگر علماء کا خیال ہے نیز خلفاء اربعہ کا بھی اسی پر عمل ہے ۔انکے دلائل بھی دو طرح کے ہیں (الف) اَحادیث ِمرفوعہ صحیحہ: (۱) محمد بن نصر مروزی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے لائے ہیں ، عراقی نے اس کی سند کو جید قرار دیا ہے۔ (۲) بخاری کتاب المغازی میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لائے ہیں ۔(ب) اَقوال انس رضی اللہ عنہ : جو کہ صحیح بخاری وغیرہ میں موجود ہیں ۔ جو حضرات بعد از رکوع قنوت کے قائل ہیں ، وہ دوسرے اَصحاب کا ردّ یوں کرتے ہیں کہ فریق مخالف کی احادیث ِمرفوعہ سب کی سب ضعیف ہیں کیونکہ جو روایت ابن مسعود کی ہے اس کی سند میں ابان ابن ابی عیاش ضعیف ہے نیز عراقی نے اسے ضعیف کہا ہے۔ اسی طرح ابوداود میں جو اُبی بن کعب کی روایت ہے، ابوداود نے کئی وجوہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ باقی رہے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے اَقوال تو وہ آپس میں متعارض ہیں ۔ (نیل الاوطاروغیرہ) …الغرض بعد از رکوع کے مرجحات درج ذیل ہیں : (i) احادیث ِصحیحہ مرفوعہ جو کہ بخاری،مروزی او ربیہقی وغیرہ لائے ہیں (ii) خلفاءِ اربعہ کا عمل (iii) بیہقی کا یہ کہنا : رواۃ القنوت بعد الرفع أکثروأحفظ (تحفۃ الاحوذی)
’’بعد از رکوع قنوت کے راوی قبل از رکوع قنوت کے مقابلہ میں تعداد اور ضبط میں بڑھ کر ہیں ‘‘ مگر علامہ ناصرالدین البانی نے صفۃ الصلوٰۃ کی تعلیقات کے ضمن میں ابن ابی شیبہ ، ابوداود، نسائی (السنن الکبریٰ) ، احمد، طبرانی، بیہقی اور ابن عساکر کی روایات کوسندا ً صحیح قرار دیا ہے۔
[4] ترمذی کی روایت میں فاء ہے ، ابو داود میں نہیں ۔
[5] ترمذی اور ابودائود میں وائو بھی موجود ہے۔
[6] ابوداود، بیہقی اور طبرانی میں یہ زیادتی موجود ہے، حافظ ابن حجر نے تلخیص میں اس کی صحیح قرار دیا ہے۔
[7] ترمذی میں اس سے پہلے سبحانک بھی ہے۔
[8] یہ زیادتی نسائی میں ہے مگر ابن حجر، قسطلانی اور زرقانی وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ بعض اصحابِ شافعی اور قسطلانی کے نزدیک درود کاپڑھنا افضل ہے۔ (مدارک الصیام للقسطلانی) …یہ زیادتی ابن خزیمہ اور ابن شیبہ میں بھی موجود ہے (صفۃ الصلوٰۃ)
[9] محقق حنفی ابن ہمام نے فتح القدیر میں اسے حق قرار دیا ہے۔