کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 3
تارکین اَحکام و طاعات
ان میں سب سے پہلا گروہ ظالم لنفسہ کا ہے۔ یہ اپنے نفس کے لئے اس لئے ظالم ہیں کہ انہوں نے اللہ کو اور اس کے ذکر کو بھلانا چاہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خود اپنے نفس ہی کو بھول گئے :
﴿اَلَّذِيْنَ نَسُوْا اللّٰهَ فَاَنْسَاهُمْ اَنْفُسَهُمْ، اُوْلٰئِکَ هُمُ الْخَاسِرُوْنَ﴾ (۵۹:۱۹)
”وہ لوگ کہ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا، نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے نفس ہی کی طرف سے غافل ہوگئے۔ یہی لوگ ہیں کہ دونوں جہان کے گھاٹے میں ہیں “
یہ ظالم لنفسهاس لیے ہیں کہ انہوں نے عدالت ِحقہ کا رستہ چھوڑ کر اِسراف و تبذیر کا رستہ اختیار کیا۔ ظلم کہتے ہیں زیادتی کو، اور عدالت ِحقہ صرف اسی راہ میں ہے جسے صراط ِمستقیم، میزان الموازین اور قسطاس مستقیم کہا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرمایا: ﴿الَّذِيْنَ اَسْرَفُوا عَلٰی اَنْفُسِهِمْ ﴾ (۳۹:۵۲)
”وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنے نفسوں پر زیادتی کی“
ہوائے نفس کی لذتوں نے انہیں پاگل کردیا ہے:﴿کَمَا يَتَخَبَّطُه الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ﴾ ان کی زندگی کی غایت صرف غذا اور روٹی ہے۔ اللہ نے انہیں انسان بنایا تھا تاکہ وہ اعلیٰ قوائے انسانیت سے کام لیں ، پر وہ مثل چارپایوں کے بن گئے جو صرف اپنا چارا ڈھونڈہتا ہے اور صرف اپنی غذا کے لئے دن بھر دوڑتا اور لڑتا رہتا ہے: ﴿اُوْلٰئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ اَوْلٰئِکَ هُمُ الْغَافِلُوْنَ﴾ (۸:۱۷۸)
” یہ لوگ مثل چارپایوں کے ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر اور یہی ہیں کہ غفلت میں پڑ گئے ہیں “
سو ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ اللہ کی حکومت سے باغی ہیں ، اس کے قوانین سے انہوں نے علانیہ سرکشی کی ، اس کے پاک حدود و مواثیق کو انہوں نے یکسر توڑ ڈالا۔ وہ انسانوں کے آگے جھکتے ہیں ، مگر فاطر الارض والسموات کے آگے جھکنے سے اُنہیں شرم آتی ہے۔ وہ دنیاوی حاکموں سے ڈرتے ہیں ، پر اَحکم الحاکمین کا ان کے دلوں میں خوف نہیں ۔ انسانی بادشاہت کا اگر ایک چھوٹے سے چھوٹا قانون بھی ہو تو اس سے سرتابی کرنے کی انہیں ہمت نہیں پڑتی، کیونکہ ان کو یقین ہے کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو عدالت سزا دے گی اور حاکم وقت باز پرس کرے گا۔ پر شہنشاہِ ارض و سماء کے بڑے سے بڑے قانون کو بھی ٹھکرا دینے اور ذلیل و حقیر کرنے سے وہ نہیں ڈرتے، کیونکہ اللہ پر انہیں یقین نہیں رہا اور اس کی سزاؤں کو وہ نہیں مانتے۔ وہ اپنی نفسانی خواہشوں کے پورا کرنے کا اختیار اگر کسی انسان کے ہاتھ میں دیکھتے ہیں ، تو جانوروں کی طرح اس کے پاؤں پر لوٹتے ہیں ، گدھے کی طرح اس کا مرکب (سواری) بن جاتے ہیں ، اور غلاموں اور چاکروں کی طرح اس کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے ہیں ، تاکہ وہ انہیں کچھ عرصہ کے لئے روٹی دے یا تانبے اور چاندی کے چند سکے حوالے کردے۔ پر وہ جس نے انہیں پیدا