کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 27
(ج) آپ سے ایک دفعہ تیسری رکعت میں سورة نساء کی سو آیات پڑھنا بھی ثابت ہے (نسائی، احمد بسند صحیح)
قنوت کا شرعی معنی
لفظ قنوت گو متعدد معانی کے لئے مستعمل ہے مگر یہاں نماز میں قیام کے کسی مخصوص مقام پر دعا کرنامراد ہے۔(فتح الباری)
قنوت کی دو اقسام
(۱) قنوتِ نازلہ:کسی مصیبت، جنگ یا حادثہ کے وقت دشمن کے خلاف یا مسلمان کے حق میں پنج وقتہ[1] نماز یا کسی [2]ایک نماز میں رکوع سے پہلے یا بعد دعا مانگنا ہے۔
نوٹ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے قنوتِ نازلہ کے مقام و محل کے بارے میں تین طرح کی روایات ثابت ہیں : (۱) قبل الرکوع[3] (۲) بعد الرکوع[4] (۳) قبل الرکوع و بعد الرکوع[5]
علماء/ محققین کے نزدیک گو رکوع سے قبل اور بعد ہر دو طرح [6]جائز ہے۔ مگر بعد از رکوع اولیٰ اور اقویٰ ہے۔[7]
قنوتِ نازلہ کاطریقہ
رکوع کے بعد اللّٰهم ربنا لک الحمد [8]پڑھ کر بآوازِ [9]بلند دعاءِ قنوت پڑھے، دونوں
[1] نسائی کی مندرجہ روایت میں عبدالعزیز بن خالد مقبول ہے اور باقی سب راوی ثقہ ہیں ۔ نیز نسائی کی روایت میں ولا یسلم إلا فی اٰخرھن کی زیادتی موجود ہے ( نیل الاوطار)
[2] سورۃ الفلق والناس
[3] امام ترمذی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث جو بواسطہ ابن جریج ہے کوحسن غریب کہا ہے مگر اس میں دو وجہ سے کلام ہے:
۱۔ سند میں ابن جریج کا سماع حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہیں ۔
۲۔ سند میں خصیف مُختلط ہے۔ مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی دوسری روایت جس کی طرف امام ترمذی نے ارشاد فرمایا ہے اور جو ابن جریج کی بجائے عمرۃ سے مروی ہے او رجسے امام دارقطنی ، طحاوی، حاکم اور ابن حبان نے روایت کیاہے نیز ابن حجر نے تلخیص میں اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے اور عقیل نے اسے صالح الاسناد کہا ہے، اس کی مؤید ہے ۔نیز ابن السکن اپنی صحیح میں عبدالعزیز بن سرحیس سے بسند غریب شاہد لائے ہیں ۔ (تحفۃ الاحوذی ونیل الاوطار)
[4] جیسا کہ ابوداود اور احمد میں ابن عباس سے بسند صحیح مروی ہے کہ آپ ا نے ایک مہینہ پانچ نمازوں میں قنوت فرمائی۔ (زاد المعاد)
[5] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح روایت ہے کہ آپ نے نماز عشاء اور فجر میں پورا مہینہ قنوت فرمائیـ( زادالمعاد) … نیز صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے،اور صحیح مسلم میں براء سے فجر اور مغرب کا ذکربھی ہے۔ (زادالمعاد ، بخاری)
[6] بخاری، کتاب المغازی از انس رضی اللہ عنہ موقوفاً
[7] بخاری، کتاب المغازی از انس وابن عمر رضی اللہ عنہما مرفوعا ً
[8] ابن ماجہ از انس موقوفا ً بسند قوی (فتح الباری، کتاب الوتر)
[9] جواز کی وجہ، ابن ماجہ کی مشارالیہ روایت اور صحابہ کا اختلاف ہے۔