کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 26
تین اور جو ایک تو ایک پڑھ لے (ابوداؤد، نسائی[1]، ابن ماجہ)
جمہور علماءِ امت کے نزدیک نمازِ وتر سنت موٴکدہ[2] ہے۔
تین یا پانچ وتر پڑھنے کاطریقہ
تین یا پانچ وتر پڑھنے کے دو طریقے ہیں :۱۔ ایک ہی تشہد اور سلام سے ادا کرنا۔
۲۔ ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا اور پھر آخری رکعت کو الگ پڑھنا اور یہ افضل ہے ۔مگر تین رکعت وِتر اکٹھے ادا کرتے وقت یہ شرط ہے کہ دوسری رکعت پرتشہد نہ بیٹھے ورنہ نماز مغرب سے مشابہت لازم آئے گی اور یہ شرعاً ممنوع ہے۔[3]
آداب ِوتر
قراء ت (الف) اگر ایک یا پانچ رکعت وتر ادا کرنا ہو تو اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی مخصوص قراء ت اور اس کی مقررہ حد ثابت نہیں ، البتہ اگر تین رکعت ادا کرنے ہوں تو اس میں زیادہ ترآپ کی سنت مطہرہ یہ تھی کہ پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ، دوسری میں قل يٰأيها الکافرون اور تیسری میں قل هواللّٰه أحد پڑھتے۔
(۱۔ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ از ابن عباس مرفوعاً بسند صحیح… ۲۔ احمد، ابوداود، نسائی، [4]ابن ماجہ از ابی بن کعب مرفوعاً بسندصحیح)
(ب) اس کے علاوہ کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیسری رکعت میں معوذ تین [5]بھی ملا لیتے۔
(ترمذی، ابوداود از عائشہ بواسطہ ابن جریج بسند ضعیف وبواسطہ عمرة بسند صالح) [6]
اکثر علماء تیسری رکعت میں صرف قل هو اللّٰه أحد پڑھنے کے قائل ہیں کیونکہ ابن عباس اور ابی ابن کعب کی روایت میں جو کہ زیادہ صحیح ہے، معوذتین کاذکر نہیں ۔
[1] فتح القدیر
[2] یہی مذہب امام ابوحنیفہ، احمد، جمہور شافعیہ اور بعض مالکیہ کا ہے۔ صرف امام مالک، ابویوسف اوربعض شافعیہ گھر میں فردا ً فرداً پڑھنے کوافضل سمجھتے ہیں ۔ (حواشی المصابیح فی صلوٰۃ التراویح للسیوطی)
[3] چنانچہ آپ سے کبھی تو ہر رکعت میں سورۃ مزمل کی مقدار برابر، کبھی پچاس آیات برابر، کبھی رات بھر میں سورۃ بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انعام، اعراف اور توبہ اور کبھی ایک ہی رکعت میں بقرہ، نساء اور آلِ عمران کا آہستہ آہستہ پڑھنا صحیح احادیث میں ثابت ہے۔
[4] طحاوی اور حاکم نے بھی سند صحیح سے روایت کیا ہے۔
[5] چنانچہ ابن ماجہ میں حضرت علی سے روایت ہے: إن الوتر لیس بحتم ولا کصلاتکم الفریضۃ ’’وتر نہ واجب ہے اور نہ فرض نماز کی طرح ہے اورابن منذر نے الوتر حق کے بعد لیس بواجب کے اَلفاظ بھی ذکر کئے ہیں ۔
[6] بلکہ بعض صحیح روایات میں تین رکعت وتر پڑھنے سے مطلق روکا گیا ہے تاکہ نمازِ مغرب سے کسی اعتبار سے ہی مشابہت نہ ہو۔ جیسا کہ دارقطنی میں حضرت ابوہریرہ سے بسند صحیح مروی ہے لیکن چونکہ دوسری روایات میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھنا بھی ثابت ہے جیسا کہ صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، اس لئے دونوں میں یہ تطبیق ہوگی کہ تین رکعت وتر اکٹھے پڑھتے وقت دوسری رکعت پر تشہد نہ کرے تاکہ نمازِ مغرب اور وتر کی ہیئت ادا میں فرق پیدا ہوجائے۔