کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 25
قراء کی اقتدا میں باجماعت قیام کا حکم دینا اس کی افضلیت[1] کی واضح دلیل ہے۔
قیام کے آداب
۱۔قراء ت:(الف) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان اور غیر رمضان میں قیام کی قراء ت کے بارے میں کوئی ایسی مقررہ حد ثابت نہیں کہ جس سے کمی و بیشی نہ ہوسکتی ہوبلکہ آپ کبھی لمبا قیام فرماتے اور کبھی چھوٹا [2]
(ب) اگر کوئی شخص امام ہو تو اسے نماز میں تخفیف کرنی چاہئے۔ اکیلا ہونے کی صورت میں حسب ِمنشا قرا ء ت لمبی کرسکتا ہے۔ (متفق علیہ از ابوہریرہ)
(ج) اگر مقتدی امام کی قرا ء ت میں لمبی نماز کوپسند کریں تو جائز ہے۔
(د) کوئی شخص خواہ امام ہو یا مقتدی، اپنی نفلی نماز اتنی لمبی نہ کرے کہ صبح کی نماز فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو یاپھر دن کی خیروبرکات سے محرومی لازم آئے۔
البتہ کبھی کبھی پوری رات کا قیام بھی جائز ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ تھی۔
۲۔ حسن و طول: قیام اللیل کو لمبا اور اچھے طریقہ سے ادا کرنا مستحب ہے جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے حسن و طول کو بیان فرماتی ہیں ۔ (متفق علیہ از عائشہ رضی اللہ عنہا )
۳۔ وقت قیام: (ا) نمازِ عشا کے مابعد سے لے کر طلوعِ فجر تک قیام کا وقت ہے۔ (احمد وغیرہ از ابی بصرہ مرفوعاً بسند صحیح)
(ب) رات کے آخری حصہ میں قیام افضل ہے۔ (مسلم وغیرہ مرفوعاً)
(۳) صلوٰة ِوتر
آپ گذشتہ صفحات میں یہ معلوم کرچکے ہیں کہ صلوٰةِ وتر کا اطلاق کبھی پوری نمازِ تہجد پر جو کہ سات تا گیارہ یاتیرہ رکعت ہے او رکبھی ایک یا تین یا پانچ رکعت پر ہوتا ہے اور یہاں یہی مراد ہے۔
نماز وتر کا حکم اور رکعات کی تعداد
حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”وتر ہر مسلمان پر لازم ہے۔ پس جو شخص پانچ رکعت پڑھنا پسندکرے پانچ پڑھ لے، جو تین تو
[1] مسلم:باب صلوٰۃ اللیل والوتر
[2] موطا مالک، قیام اللیل مروزی