کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 24
منها رکعتا الفجر ”آپ فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان اور غیر رمضان میں نماز تیرہ رکعت ہوتی تھی اور ان میں سے صبح کی دو رکعت بھی شامل تھیں “ نوٹ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ گیارہ رکعت والی روایت میں یہ بھی ارشاد ملتا ہے کہ آپ گیارہ سے زائد تو نہیں البتہ کم بھی پڑھتے تھے چنانچہ بعض روایات میں سات اور نو کا بھی ذکر ہے مگر بیس رکعت نماز تراویح کا ثبوت کسی مرفوع اور صحیح روایت میں نہیں بلکہ متعدد حنفی علماء اس امرکی تصدیق کرچکے ہیں ۔ البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کردہ وہ روایت جس میں بیس رکعت کا ذکر ہے، کئی وجہ سے قابل استدلال اور عمل نہیں مثلاً ۱۔ وہ روایت شاذ ہے یعنی اکثر ثقہ راویوں نے اس روایت کے ضعیف راوی کے اُلٹ بیان کیا ہے۔ ۲۔ شاذ ہونے کے ساتھ ساتھ ضعیف بھی ہے۔ ۳۔ اگر بالفرض اس کی صحت تسلیم بھی کرلی جائے تو بھی اس قابل نہیں کہ اسے رسول عربی علیہ الصلوٰة والسلام کی سنت ِصحیحہ ثابتہ کے مقابلہ میں لاکھڑا کردیا جائے۔ بلکہ یہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے مترادف ہے۔ ۴۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کردہ مذکورہ روایت کے برعکس آپ سے یہ روایت بھی [1]موجود ہے کہ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُبی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم فرمایا۔ الغرض حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ ناقابل تردید و انکار روایت کی بنا پر بعض محقق حنفی علما یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ سنت تراویح صرف گیارہ رکعت ہیں اور اس سے زائد تعداد کاسنت ہوناثابت نہیں ۔چنانچہ شیخ ابن ہمام جو حنفیہ میں بڑے پائے کے بزرگ اہل علم گزرے ہیں ، شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں : فحصل من هذا أن قيام رمضان سنة إحدي عشرة رکعة بالوتر في جماعة فعله عليه السلام[2] ”اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ رمضان کا مسنون قیام وتر سمیت گیارہ رکعت ہے اور اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باجماعت بھی ادا فرمایا ہے “ قیام باجماعت کا حکم قیام باجماعت اکیلے قیام کرنے سے افضل ہے۔چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تمام لوگوں کو مقرر کردہ ائمہ،
[1] نووی [2] نووی